Category: Celebrities

  • Mere Paas Tum Ho

    Mere Paas Tum Ho

    عورت

    ایک وقت تھا جب پاکستانی عورت انٹرنیٹ پر اپنا ذاتی نام تک لکھنا گوارا نہیں کرتی تھی۔  Mere Paas Tum Ho

    آج وہ زمانہ ہے! کہ پاکستانی عورت سوشل میڈیا پر خود کو ننگا کر کے بھی شرمندگی محسوس نہیں کر رھی! کہیں اپنے جسم کے مد و جذر، اور! کہیں اپنی چھاتی کا سائز،! جبکہ کہیں اپنے ہپس کی شیپ! اور کہیں ٹک ٹاک پر غمزہ و عشوہ اندازیاں اس قدر رنگ رلیوں میں ڈھلی ہوئی ملتی ہے !کہ طوائف کا لفظ بے معنی سا لگنے لگا ہے!

    اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل تر ہو گیا ہے! کہ طوائف کسے کہنا چاہیے؟! وہ جن کو اس معاشرے کے شریف زادوں نے اپنی اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کے لیے! چکلوں پر بٹھا کر جن کے پاس اپنی اپنی گھر والیوں کے ڈھلتے جسموں سے تنگ آ کر رنگ رلیاں منانے آتے ہیں! یا وہ جو چند Likes یا چند Comments کے لیے اپنے جسموں کی نمائش کراتی نظر آ رھی ہیں؟

    معاشرے نے بہت جلد اخلاقی تنزلی کا سفر طے کیا ہے! پیسے نے عورت کو ننگا نچا دیا ہے!

    میڈیا

    اس میں سب سے اہم کردار پاکستانی میڈیا نے ادا کیا ہے! ایک وقت تھا جب پی ٹی وی پر آنے والی عورتیں پاکستانی فلموں کی عورتوں پر طعنہ زن تھیں! کہ وہ اخلاق سوز کردار ادا کرتی ہیں۔! پھر ٹی وی چینلز کی اسقدر بھر مار ہوئی کہ انگنت ٹی وی چینلز پر مقابلہ شدت اختیار کر گیا! اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے ٹی وی چینلوں نے بیہودہ ہندوستانی ڈراموں کا چربہ شروع کر دیا! اور معیار کا خیال رکھے بغیر دھڑا ڈھڑ اخلاق سے گرے ہوئے ڈرامے بنانے شروع کر دئیے!

    اگر کچھ کمی تھی وہ مارننگ شوز کی بیہودگیوں نے نکال دی۔! اسقدر بیہودہ، بدکردار اور لغویات سے بھرے پروگرام دیکھ کر کچھ دیر کے لیے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ Mere Paas Tum Ho

    [embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=afBZRFMWsqo[/embedyt]

    وہ عورت جو کبھی ٹی وی ناچتی نظر نہیں آتی تھی اسکو نہ صرف نچا دیا بلکہ عورت کو اسقدر غلیظ بنا کر پیش کیا جانے لگا کہ جس کا کمال حال ہی میں “میرے پاس تم ہو” جیسے ڈرامے پر ہوا!

    پاکستانی ڈراموں کا معیار یہ ہے! کہ سو میں سے اٹھاونے ڈراموں کی کہانی ایک ھی تھیم پر نظر آئے گی: ایک عوت کئی مرد، کہیں! ایک مرد کئی عورتیں،! بہن بہنوئی پر عاشق! اور تو اور اس ملک کے ڈرامہ نویسوں کے دماغ اسقدر مجروح ہو چکے ہیں! کہ مزاحیہ ڈرامے بھی اسی ایک تھیم کے گرد گھومنے لگے ہیں۔! مزاح نام کی کوئی شے ان میں پائی نہیں جاتی! شاید ہی ایک ڈرامہ ایسا نظر آئے جسکا معیار پرانے پی ٹی وی ڈراموں کے مقام پر ہو! ایک ہی تھیم میں رتی برابر ردوبدل کر کے ایک ہی پیغام دیا جا رھا ہے: زنا جائز ہے! بداخلاقی جائز ہے!  Mere Paas Tum Ho

    Mere Paas Tum Ho

    میرے پاس تم ہو

    اسقدر مقابلہ بازی ہے کہ کسی قسم کی اخلاقی، معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور مذہبی قدر کا خیال نہیں رکھا جاتا! جس ڈرامے میں جتنی بیہودگی ہوتی ہے اس کو اتنی زیادہ کورج دی جاتی ہے! اس کا ایک ثبوت ذکرِ بالا ڈرامے”میرے پاس تم  ہو” ہے! خلیل الرحمٰن قمر نے امریکی ڈرامے Indecent Proposal کی کہانی کو چرا کر اس میں رد و بدل کرکے پاکستانی معاشرے میں بے حیائی، بدی اور غلاظت کی نئی ریت کو جنم دیا ہے۔ اس ڈرامے کی نسبت کہیں لکھا ہے کہ “زنا کو کو انتہائی خوب صورتی سے بیوفائی سے تدبیر کیا گیا ہے”۔۔۔ اور بات بھی درست ہے! Mere Paas Tum Ho

    پاکستانی ڈراموں کا میعار یہ ہو چکا ہے کہ زنا کرنا کوئی معیوب نہیں، بلکہ ایک عورت کسی غیر مرد کے ساتھ کئی کئی دن ایک کمرے میں گزار لے اسکے باوجود اسے پر کوئی تعزیر نہیں ہونی چاہیے! اور ٹی وی چینلز ایسی سوچ کر پروان چڑھا رھے ہیں۔ بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان ڈرامہ نویسوں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بہوئیں ایک وقت میں دس دس مردوں سے سیٹ ہیں، جن کی عکاسی یہ لوگ اپنے ڈراموں میں کرتے ہیں۔ 

    اثر

    کہتے ہیں تصویر الفاظ سے زیادہ اثر رکھتی ہے! میڈیا کی کھلم کھلا ذہنی غلاظت معاشرے پر ایسے اثر انداز ہو رہی ہے جس کا ثبوت اب سوشل میڈیا پر پاکستانی عورت کی صورت میں نظر آ رھا ہے!  رنگ برنگے ایوارڈز شوز میں عورت کو بیہودہ برہنہ لباس میں دکھا کر  عورت کے ذہن کو مسخر کیا جانے لگا ہے  اور اسکو اخلاقیات سے گرایا جا رھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان عورت سوشل میڈیا پر اپنے نہیں تو دوسری عورتوں کے جسموں کے باپردہ اعضاء کو دیکھانا معیوب نہیں سمجھتی۔ پھر جب یہی عورت “میرا جسم میری مرضی ” کا نعرہ بلند کرتی ہے تو اس پر اخلاقیات کے رکھوالے دھڑا دھڑ فتوے کسنا شروع کر دیتا ہے۔ Mere Paas Tum Ho

    Mere Paas Tum Ho

    پاکستان میڈیا، سوشل میڈیا اور شو آف پرسنلٹیز نے پاکستانی معاشرے کی رھی سہی اخلاقی قدروں کو بھی جڑوں سے اکھاڑنے کا تہیہ کر لیا ہے! علم و ادب کے عظیم الشان نام عطاالحق قاسمی سے لیکر خلیل الرحمٰن قمر تک اس ملک میں ذہنی پسماندگی کا کوئی جوڑ نہیں!  امید رکھیں تو کس سے؟ Mere Paas Tum Ho

    الامان الحفیظ!

    Mere Paas Tum Ho, Pakistani Drama Serial, Pakistan Social Media, Humayun Saeed, Aiza Khan.


    بقلم: مسعودؔ

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Rang’baaziyaan

    Rang’baaziyaan

    ایوارڈ

    مہوش حیات کو صدراتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔

    اس پر پاکستان میں وہ اودھم مچا کہ ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا۔! جس جس کی جتنی سوچ تھی اسکی زبان اسی سوچ کے مطابق چلی۔! کیا کیا القاب دئیے گئے میں یہاں انکو بیان نہیں کرونگا! کہ وہ سوشل میڈیا ہی کا لیول ہے! Rang’baaziyaan Rang’baaziyaanRang’baaziyaan

    میں بذاتِ خود اس ایوارڈ کے بالکل بھی حق میں نہیں! مگر جو حالات اس ملک کے ہیں انکو دیکھتے ہوئے میں برخلاف بھی نہیں! الفاظِ عام میں مجھے کوئی غرض نہیں!

    تو پھر یہ بلاگ کیوں داغ ڈالا؟Rang’baaziyaan Rang’baaziyaan Rang’baaziyaan

    فیس بک ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر پاکستانیت خوب کھل کر سامنے آتی ہے! اور اس پاکستانیت میں جب اسلامیات کو شامل کر دیا جاتا ہے! تو تڑکا کئی رنگ دکھاتا ہے۔ فیس بک نے سنسر نہ ہونے کی بنا پر ہر کسی کو بولنے کا موقع دیدیا ہے !جس کی بنا پر ایک نیک سیرت، پکا مسلمان اور خالص پاکستانی خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے گندی سے گندی گالی،! فحش سے فحش تصویر اور بے ہودگی سے بڑھ کر بیہودگی کرتے پایا جاتا ہے !مگر نہ ہی تو اسکی پاکستانیت پر آنچ آتی ہے نہ مسلمان ہونے پر!

    مہوش حیات کی نسبت لاتعداد پوسٹس اور ٹویٹس اگنور کرنے کے بعد! آج ایک پوسٹ دیکھی جس کے بعد میرا قلم جنبش میں آیا۔۔۔ پہلے وہ پوسٹ دیکھتے ہیں۔۔۔

    ریاستِ مدینہ کا نام لینے والوں سے یہ توقع نہ تھی

    مدعا

    صاحبِ قلم نے بڑی خوبصورتی سے الفاظ کا تانا بانا بنتے ہوئے !طوائف کے ناپاک وجود کی تعریف یا تذلیل کرتے ہوئے! اصل مدعا پر آ کر بات ختم کی۔۔۔ اصل مدعا صرف یہ تھا کہ  عوام کے دماغ کو متنفر کیا جائے! کہ یہ ایوارڈ عمران خان نے دلوایا ہے! اور چونکہ عمران خان نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم کر رکھا ہے! مگر اس پر وہ قائم نہیں لہٰذا اب ہمارا فرض بن رھا ہے !کہ ہم چھ ماہ کے بعد ہی عوام کے دلوں میں نفرت کے بیچ بونا شروع کر دیں۔ Rang’baaziyaan Rang’baaziyaan Rang’baaziyaan

    چونکہ وہ خاص کر ان ناسوروں کو قطعی طور پر معاف نہیں! کر رہا جو اس قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے !لہذا اب ہر ممکن طور پر اسکے خلاف نفرت پھیلائی جائے۔! کیونکہ ہم وہ غیرتمند قوم ہیں جو پچھلے 70 سال سے خاموش رہے اب یکدم ہماری غیرت جوش مار رہی ہے۔۔ اس پر بعد میں۔۔

    طوائف

    پہلے طوائف سے ادکارہ بننے کی جو دلآویز الفاط میں صورتحال بیان کی اس پر چند الفاظ!۔۔۔ یہ باتیں تو میں ایک مدت پہلے لکھ چکا ہوں !کہ پہلے ہمارے ہاں نیک سیرت عورت ناچنے کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھاتی تھی! اور ہمارے ٹی وی پر اسکی مثالیں موجود ہیں !مگر میڈیا کی آزادی نے آج ٹی وی کی شریف زادیوں کو بھی ناچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

     ہمارے ٹی وی شوز کی جو حالت ہے وہ کسی طوائف خانے سے کم ہے؟! رہی بات فلموں کی تو یہ 1948 سے ایسا ہی چلتا آ رہا ہے کہ اپنے جسموں کو ہلا ہلا کر دکھانے والیوں اور والوں کو حکومتیں ایوارڈز سے نوازتی چلی آ رہی ہیں۔! ریما کو ایوارڈز دئیے گئے کیا وہ مہوش حیات سے زیادہ مقدس اور پارسا تھی؟! بابرہ، انجمن، شبنم، نادرہ، نیلی، روحی بانو اور پتہ نہیں کون کون؟! مگر وہ سب عمران کے دور سے پہلے کی بات ہے لہٰذا وہ نیک نیتی میں آ جاتی ہے۔ Rang’baaziyaan Rang’baaziyaan Rang’baaziyaan

    حال ہی میں ایک برطانوی یونیورسٹی نے راحت علی خان کو اعزازی ایوارڈ سے نوازا!، جس پر اسی ملک کی عوام نے فخر محسوس کیا، !پوچھنا یہ ہے کہ کیا راحت ایک کنجر اور گویا نہیں؟! یا یہ ایک مہذب کنجر اور گویا ہے جو ایک اچھے انداز میں خود کو بیچ سکتا ہے! تو یہ قابلِ قبول ہے؟ یا ایوارڈ انگریز نے دیا ہے !اور وہ ہمارا آقا ہے اسکا ایوارڈ ہمارا فخر ہے؟

    تماش بین

    طوائف کی تو صاحب قلم نے بڑی خوبصورتی سے تعریف کر دی،! مگر اس عورت کو جو کسی کی ماں بہن بیٹی ہے !اسکو طوائف بنانے والا کون ہے؟!!! کون ہے جو مسرت شاھین کے ٹھمکوں کو دیکھ کر تالیاں بجا بجا خوش ہوتا رہا ہے؟

    کون ہے جو انجمن کے جسم کی پھدک کو دیکھ کر سینما گھروں میں بیٹھ !کر بھڑکیں مارتا ہے؟! کون ہے جو اسٹیج شو پر ناچتی عورت کو دیکھ کر بڑھکیں مار مار اپنا خون گرماتا ہے؟!! اور کون ہے جو طوائفوں کے جسموں کی قیمت لگا کر اپنی ہوس کی آگ بجاتا ہے؟ وہی پاکستان غیرتمند مرد جو ہر کام کر لینے کے بعد خود کو نفیس ثابت کرنے بیٹھ جاتا ہے۔

    کون ہے جو ایک انڈروئیر اور ایک برا میں ناچتی ہندوستانی کنجریوں کی دیکھ کر اپنے خون کو گرماتا رہا ہے؟! اور ان حسیناؤں کو اپنے منوں میں بساتا رہا ہے؟ اور فحر سے کہتا ہے کہ کیا اداکارہ ہے یار! وہی غیرتمند پاکستانی مرد! وہ پاکستانی مرد جو گلی کوچوں میں والدین سے چھپ چھپا !کر معصوم بچوں کو بیہودہ فلمیں دکھاتا ہے، وہ پاکستانی غیرتمند مرد جو ویڈیوز کی  گندی دکانیں چلاتا ہے۔۔ 

    قربِ قیامت

    ایک صاحب نے کہا کہ یہ قربِ قیامت کی نشانی ہے! کہ ایک بقول انکے طوائف کو ایوارڈ سے نوازا گیا اور اہل ہنر بیٹھے رہے۔۔۔

    قرب قیامت کی نشانی یہ نہیں کہ کسی مستحق کو اسکی کارکردگی سراہنے پر نوازا جائے!، قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے کہ آپ کے ملک کی مساجد میں اخلاق سوز حرکات ہو رہی ہیں،! قرآن پڑھانے والے سات سات سال کی بچیوں کے جسموں سے کھیل رہے ہیں!، پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ناسور بچوں کے ساتھ زنا کر کے انکی ویدیوز بنا کر یو ٹیوب پر چڑھائیں پھر بھی انہیں رتی برابر سزا نہ دی جائے

     قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے کہ آپ لین دین مین فراڈ کریں،! کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کریں اور اس پر رتی برابر شرمندگی محسوس نہ کریں،!

    قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے کہ زنا عروج پر ہے، پاکستانی اس وقت سب سے زیادہ پورنوگرافی سرچ کرنے والی قوم ہے، اسکو کہتے ہیں قربِ قیامت کی نشانی

    قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے کہ آپ کا جائز کام نہیں ہونے دیا جاتا جب تک آپ رشوتیں نہ دیں، انصاف نہیں مل رھا، قاتل دھندھناتے پھر رہے ہیں اور قانون انکے آگے بے بس ہے!۔

    قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے کہ سفید پوش بھی حرام کمانے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں!، قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے کہ آپ کے ملک سے عورت کی تجارت ہو رہی ہے، بچوں کی تجارت ہو وہی ہے!، انہیں دھشتگردیوں میں ڈالا جا رہاہے، قبروں میں پڑے مردے تک شر سے محفوظ نہیں! اور آپ کو قربِ قیامت کے لیے ایک بقول آپ کے طوائف اداکارہ کا ایوارڈ ہی نظر آیا؟

    ریاستِ مدینہ

    عمران خان کی ریاستِ مدینہ پر سوال اٹھانے والے پہلے اُس ریاست ِ مدینہ کی سوچ پیدا کر لیں! عمران کی ریاستِ مدینہ میں غریب لوگوں کو اٹھانا ہے !وہ لوگ جو پچھلے 70 سال سے پستی میں دھکیلے گئے ہیں۔

    وہ لوگ جو آج بھی 6000 ہزار سال پرانی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں! کہ جہاں ایک کسان کی بیوی کو ھل میں جوتا جا رہا ہے – ذرا فیس بک سے باہر نکل کر اندرونِ پنجاب اور اندرونِ سندھ اور اندرونِ بلوچستان جائیں! – جو زندگی انسان آج وہاں گزار رھا ہے آج سے 6000 سال پہلے ہڑپہ ، موہنجوڈارو اور مہرگڑھ جیسے تہذیبیں ان سے زیادہ ایڈوانس تھیں!

    انسان کو انسان ہونے کا حق ہی کب دیا گیا ہے اس ملک میں؟ عمران خان اس غریب کو اس پستی سے نکال کر عروج دینا چاہتا ہے یہ اسکی ریاستِ مدینہ ہے۔ اور ریاستِ مدینہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں! کہ آپ زندگی کے ہر شعبے کو 1400 سال پیچھے لے جائیں اور کچے مکانوں کے مکین بن جائیں،! یہ سوچ ہی جہالت ہے!

    رنگباز

    موصوف نے لکھا کہ “آگے آگے دیکھیے یہ سگ باز اور کیا گل کھلاتا ہے”!

    غالباً کہنے والا ضیاالحق کو بھول گیا؟! وہ بندہ جس کے پنچے میں کل پاوور تھی، جو جو الفاظ چاہتا آئین کا حصہ بن سکتا تھا!، جس نے نعرۂ اسلام لگاتے ہوئے نظامِ مصطفیٰ کے قیام پر ریفرنڈم تک کروا دیا اور جس نے تمام تر اہلِ مسلک کے علماؤں کو جمع بھی کردیا ! اور نظامِ مصطفیٰ کے قیام کا حکم دیا، پھر کیا ہو؟ اسی ناسور نے ان تمام تر علماؤں کا ہر راستہ بند کر دیا! اسطرح کہ نظامِ مصطفیٰ کا نعرہ ایک مذاق بن گیا۔ اور وہی ضیا دو ٹکے کے انڈین اداکار شتروگھن سنہا کی خاص سرکاری ضیافت کر کے اپنے ہاں مدعو کیا! اور اپنی بیوی اور بیٹی کو اس سے ملاتے ہوئے کہا کہ میری بیٹٰی آپ کی بہت بڑی فین ہے!

    اسکے بعد جو بھی کیا اسکی حالت بھول گئے؟

    نوازشریف اور اسکے بھائی نے اپنے اپنے مطلب کی عورتیں حاصل کرنے کے لیے ہنستے بستے گھر اجاڑے! کیا وہ گل آپ کی غیرت کے عین مطابق تھے؟! کیا عمران خان نے آج تک کسی عورت کی شان میں گستاخی کی ہے؟! اگر نہیں تو اپنے گل اپنے منہ پر مارو!

    عمران خان کی ریاستِ مدینہ کی سوچ ہر کتے بلے کے بس کی بات نہیں! جب تک عمران خان کے 5 سال مکمل نہیں ہو جاتے، یا عمران خان خود یہ نہیں کہہ دیتا کہ میں ہار گیا ہوں، میں اس وقت تک عمران خان کو سپورٹ کرونگا! چاہے اسکی راہوں میں ہزار ہا سگ فیس بک بھونکتے رہیں۔

     عمران خان وہ واحد بندہ ہے جو پاکستانی عوام کو ریلیف دے سکتا ہے!

    Mehwish Hayat Award, Tamgha-i-Husn-e-Karkardgi, Best Actress Award, PTI Goverment, Asif Alvi.

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم: مسعودؔ

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Roohi Bano Passes Away

    Roohi Bano Passes Away

    پاکستان ٹیلویژن کی مشہور، نامور، ورسٹائل اور ہردل عزیز اداکارہ روحی بانو آج وفات پا گئیں۔

    Roohi Bano Passes Away

    روحی بانو نے ایک ممتاز خاندان میں جنم لیا۔ انکے والد مشہورِ زمانہ طبلہ نواز استاد اللہ رکھا قریشی تھے۔ روحی بانو کے بھائیوں میں بھی اعلیٰ سطح کے فنکار پیدا ہوئے ۔ استاد ذاکر حسین طبلہ نواز، توفیق قریشی، فضل قریشی سبھی اعلیٰ سطح کے طبلہ نواز اور موسیقار تھے اور ہندوستانی فنونِ لطیفہ میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

    روحی بانو 10 اگست 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک عرصہ سے بیماری میں مبتلا تھیں اور ترکی میں زیرِ علاج تھیں۔

    روحی بانو نے پی ٹی وی پر اداکاری کا آغاز اسوقت کیا جب وہ لاہور گورنمنٹ کالج سے نفسیات میں ایم ایس سی کر رہی تھی۔ روحی بانو ایک کوئز پروگرام میں شرکت کی کہ انہیں فاروق ضمیر نے ڈرامہ آفر کیا۔

    روحی بانو کے مشہورِ زمانہ ڈراموں میں قلعہ کہانی، زردگلاب، حیرتکدہ، دروازہ، کرن کہانی  اور بہت سارے دوسرے ڈامے شامل ہیں۔

    روحی بانو نے فلموں میں کام کیا ہے مگر ان کی شناخت ٹی وی سے ہے۔

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

    Roohi Bani Passes Away

  • Hijr ki raat aur wisaal key phool – ziya mohyeddin

    Hijr ki raat aur wisaal key phool – ziya mohyeddin

    [embedyt] https://www.youtube.com/embed?listType=playlist&list=UU52h_LCatoUs6ycLjT9V8bQ&layout=gallery[/embedyt]

  • Nazia Hassan – Beauty and Sound

    Nazia Hassan – Beauty and Sound

    [embedyt] https://www.youtube.com/embed?listType=playlist&list=RDEMjQwVfIWnIDmjUSTeNWUCmw&v=mWzTZE-B1fM&layout=gallery[/embedyt]

     

    Nazia Hassan – Beauty and Sound