Tag: jaam

  • کلامِ ساغر: نگاروں کے میلے

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#41ebf4″][dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#aef7fa” border_width=”3″ border_color=”#080f62″ ]

    کلامِ ساغر: نگاروں کے میلے

    [/dropshadowbox][dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#aef7fa” border_width=”3″ border_color=”#080f62″ ]

    نگاروں کے میلے ستاروں کے جھرمٹ
    بہت دلنشیں ہیں بہاروں کے جھرمٹ

    جواں ہیں اگر ولولوں کے تلاطم
    تو موجوں میں بھی ہیں کناروں کے جھرمٹ

    میرے چار تنکوں کی تقدیر دیکھو
    چمن در چمن شراروں کے جھرمٹ

    تیری گیسوؤں سے جنم پا رہے ہیں
    گلستاں گلستاں نظاروں کے جھرمٹ

    چھلکتا رہا ہے میرا جام زریں
    مہکتے رہے ہیں چناروں کے جھرمٹ

    تجھے یار رکھیں گی ساغرؔ بہاریں
    تری شعر میں گلغداروں کے جھرمٹ

    [/dropshadowbox]

    شاعر: ساغرصدیقی

    [/nk_awb]

    Nigar, mailey, sitarey, jhurmat, dilnasheen, bahar, mauj, kinara, tinka, taqdeer, chaman, gaisoo, nazara, jaam, Saghir Siddiqi, Shair

  • میں نظر سے پی رھا ہوں

    میں نظر سے پی رھا ہوں

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#ddfff2″]

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جائے
    نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے
    ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
    تیرا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
    میرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے
    میرا جام چھونے والے تیرا ہاتھ جل نہ جائے
    میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھدے
    تیرے آنے کی خوشی میں میرا دم نکل نہ جائے
    مجھے پھونکنے سے پہلے میرا دل نکال لینا
    یہ کسی کی ہے امانت کہیں ساتھ جل نہ جائے

    [spacer size=”30″]

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    [/nk_awb]

    شاعر: (اگرآپ کو شاعر کا نام معلوم ہے کو کامنٹس میں لکھیے)

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

  • Zindagi Nakaam Ho Chuki Hai

    Zindagi Nakaam Ho Chuki Hai

    زندگی ناکام ہو چکی ہے
    غم سے بھرا جام ہو چکی ہے

    پینے کی عادت نہیں ساقی ورنہ
    پینے کی تمنا عام ہو چکی ہے

    میں تجھے کہاں ڈھونڈنے جاؤں؟
    تیری ہستی برائے نام ہو چکی ہے

    بہت ہو چکی ہے ادا جفا کی
    میری وفا بھی الزام ہو چکی ہے

    تجھ سے کیا میں شکوہ کروں
    شکوے کی مہلت تمام ہو چکی ہے

    کسی قصے کی ابتداْ کروں کیونکر
    کہانی تو اب کہ انجام ہو چکی ہے

    جور و ستم کا یہ زخم ہے وہ
    تدبیر جس کی درد مدام ہو چکی ہے

    تجھے دیکھ کر ملتی تھی خوشی دل کو
    وہ خوشی تلخ آلام ہو چکی ہے

    بیتے لمحوں کو یاد کر کے روؤں
    یہ عادت میری صبح و شام ہو چکی ہے

    نظر آئے نہ مجھے کوئی شعاعِ زندگی
    لڑی پھولوں کی بھی دام ہو چکی ہے

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    مسعودؔ

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    Meri Shairi: Zindagi Nakaam Ho Chuki Hai

    Shab-o-roz