Tag: PPP

  • پاکستانی فوج

    پاکستانی فوج                                                 Pakistan army
    تشکیلِ پاکستان(1947) سے لیکر عمران خان کی حکومت(2022) کو ناجائز حربوں سے گرانے تک پاکستانی فوج کا پاکستانی سیاست میں انتہائی بھیانک، شرمناک اور تباہ کن کردار رہا ہے!
    پدرِ ملت کی انتھک محنتوں سے جو ریاست پاکستان کی صورت میں تشکیل پائی اسکی تقسیم ہی غلط تھی، یوں اس غلط تقسیم کو ئی 70 سال بعد انگریز خود اس بات کا اظہار کرنے پر مجبور ہو گیا کہ انہیں نے سرحدوں کی درجہ بندی میں غلطی کی، وسائل کی تقسیم میں غلطی کی! اور ایک ایسا مسلۂ کھڑا کر دیا جس نے برصغیر میں انسانی حقوق کی شدید ترین پامالی کی اور خون کی ہولیاں کھیلی گئیں۔
    مسئلہ کشمیر 1947 ہی سے پاک و ہند کے درمیان کشیدگی کی جڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں دونوں طرف سے فوجیں آزادی سے پہلے ہی ملوث ہو چکی تھیں۔ قائدِاعظم کی وفات کے بعد لیاقت علیخان نے نجانے کس مصلحت کے تحت پاکستانی فوج کو کشمیر سے واپس بلانے کا فیصلہ کیا اور اس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ کے ذریعہ حل کرانے کا فیصلہ کیا۔ مگر 75 سال گزر جانے کے باوجود یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔
    مگر لیاقت علیخان کے فیصلے نے پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت کو جنم دیا۔ بیشک وہ بغاوت کئی ایک وجوہات کی وجہ سے ناکام ہو گئی مگر اس نے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کو تقویت پہنچائی اور اسکے بعد آج تک ان فوجی سازشوں نے ملکی سیاسی حالات کو متزلزل رکھا!

    یوں فوج کے سیاسی گناہوں کی لسٹ میں جو اہم ترین واقعات ہیں وہ یہ ہیں:

    • پاکستان میں پہلی فوج بغاوت
    • لیاقت علیخان کا قتل
    • فاطمہ جناح کی تذلیل
      (میں ذاتی طور پر اس بات کو نہیں مانتا کہ فاطمہ جناح کو سیاست میں لاکر ذلیل فوج نے کی ہے۔ درحقیقت یہ کام ملاؤں نے کیا جن کی سرپرستی میرے روحانی استاد اور معلم مولانا مودودی اور مولانا شبیر عثمانی نے کی۔ مولانا ہمیشہ عورت کی حکومت کے خلاف تھے مگر 1956 کے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے فاطمہ جناح کو تیار کیا اور انہیں سیاست میں لائے)
    • ابتدائی حکومتوں کیخلاف سازشیں
    • اسکندرمرزا کا تقرر
      (ایوب خان ایک مدت سے حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے اور ابتدائی حکومتوں کو ناکام کرنے میں جہاں سیاسی دماغ ناکام رہے وہ ایوب خان نے بھی اپنی پوری مشینری استعمال کی، جسکا نتیجہ ایوب کے بہت پرانے اور دیرانہ دوست اسکندرمرزا کو صدر مسلط کرنے پر پورا ہوا)
    • اسکندرمرزا کی حکومت کا تختہ الٹا
      (اور پھر جب ایوب کو اداروں نے اور فوج کے اعلیٰ عہدے داروں نے وفا کا مکمل کا یقین دلایا تو اسکندرمرزا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا)
    • ایوب خان کا تقرر
    • نام نہاد آئین کا تقرر
    • دوسری فوجی بغاوت (جو بنگلہ دیش بنانے کا موجد بنی) اسکو جان بوجھ کر نظرانداز کرنا
      (لگ بھگ 1965 لیفٹنٹ کماندر معظم حسین نے مجیب الرحمان اور کچھ لوگوں کیساتھ کراچی میں علیحدگی کی بغاوت کا پلان بنایا جس کو اگرتلہ بغاوت کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سازش 1967 میں بے نقاب ہو گئی۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے، تہذیب، سیاسی نظام میں ایسی سازشوں کو جڑ ہی سے ختم کر دیا جاتا اور اس پر کسی قسم کا کوئی رحم نہیں کیا جاتا۔ مگر ایوب خان نے اپنی حکومت بچانے، بنگالیوں کو طیش میں نہ لانے کی خاطر اس سے مکمل طور پر آنکھ چرا لینے کا فیصلہ کیا)
    • پہلے آزاد الیکشن کو سبوتاژ کرنا
      1970 کے پہلے آزادنہ الیکشن میں عوامی لیگ کی زبردست کامیابی نے مغربی پاکستان کے سیاسی اور عسکری قوت کو ہلا کر رکھ دیا۔ عوامی لیگ کی کامیابی کا تسلیم نہ کرتے ہوئے بھٹو کو خاص طور پر یحیٰ خان کی حمایت حاصل تھی اور یحیٰ خان اندر ہی اندر ایوب کیخلاف بھی اپنی مشینری استعمال کر رہے تھے۔ لہذا ایک جمہوری حکومت بنانے سے انکار کرنا ملک کے لیے ناسور ثابت ہوا)
    • عوامی لیگ کی جیتی ہوئی نشستوں کو توڑنے کے لیے انکے کامیاب ممبران کا ہارس ٹریڈنگ
      ـ(عوامی لیگ کو توڑنے کے لیے اس کے ممبران کو جبراً دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے کے احکامات ملنے لگے، نہ ماننے کی صورت میں گمنام لوگوں سے انکے خاندان کے خاتمے کی دھمکیاں ملنے لگی۔ یوں عوامی لیگ کے بہت سارے ممبران ان جماعتوں میں شامل ہو گئے جو یا تو تھی ہی نہیں اور اس مقصد کے لیے بنائی گئیں یا پھر الیکشن میں بری طرح ناکام تھیں)
    • بھٹو کو لمبی ڈھیل دینا اور انکی حتمی طور پر پشت پناہی کرنا
      (سن ستر کے انتخابات میں شکست کھانے کے بعد بھٹو نے اپنی شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے اور مجیب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی بچائے گندی اور غلیظ سیاست کھیلنی شروع کی۔ یحیٰ خان کی پشت پناہی میں مغربی پاکستان کے دوسرے سیاستدانوں کو اپنے اپنے صوبوں کی خودمختاری کا نعرہ لگانے کا مشورہ دینے لگے اور بنگالیوں کی تذلیل شروع کر دی)
    • بنگال میں لاکھوں افراد کا بدترین سیلاب میں لقمہ اجل ہونے کے باوجود اس سے جان بوجھ کر لاپرواہی کرنا
      (سن ستر میں بنگال میں “بھولا” طوفان آیا جو تاریخ کا بدترین طوفان تھا۔ لاکھوں بنگالی لقمہ اجل بنے مگر پاکستانی حکومت کی ناقص کوششوں اور سست رو کاروائی نے بنگالیوں کے دل میں نفرت کی شدید ضرب لگائی اور حالات مزید خراب ہو گئے جب ہندوستان نے پاکستان سے زیادہ امداد کی)
    • جمہوریت کا بدترین قتل: مجیب الرحمن کو حکومت دینے کی بجائے ایک بدتر خنزیر تیرن جرنل یحی کو مسلط کر دیا
    • سقوطِ ڈھاکہ
      (سقوطِ ڈھاکہ ایک ایسا معمہ ہے جسے حال ہی میں پاکستان کے ریٹائر ہونے والے coas قمرجاوید باجوہ نے فوجی ناکامی کی بجائے سیاسی ناکامی قرار دیا۔ میں انکی بات سے متفق نہیں اور نہ ہی ان لوگوں کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ فوجی ناکامی تھی۔ سقوطِ ڈھاکہ ایک collective   collapse تھا جس میں ہماری تمام تر سیاسی، عسکری، مذہبی ، تھینک ٹینک سب کا سب بری طرح ناکام ہوا: مزید پڑھیۓ اس پر میرا تبصرہ یہاں)
    • امریکہ کے حکم پر بھٹو کا عدالتی قتل
      (سقوطِ ڈھاکہ کا ایک اہم مرکزی کردار بھٹو تھا، مگر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو ہی سب سے بڑا سیاسی نطق لیکر پاکستان کا سربراہ بنا اور ایک مضبوط ریاست بنانے کے لیے اپنی اہم توجہ ایٹمی پروگرام پر مرکوز کر دی، ساتھ ہی اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ بھٹو عوام میں زبردست حد تک مقبول تھا، اور یہ امریکہ کے لیے یکدم ایک بہت بڑاخطرہ بن گیا۔ بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لیے ضیاالحق کا انتخاب کیا۔ جس قتل میں بھٹو کو سپریم کورٹ سے پھانسی کی سزا دلوائی بھٹو کے اس میں ملوث ہونے کا دور دور تک کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔یہ عدالتی انصاف کا بدترین قتل تھا اور اسکے بعد پاکستانی عدالتی نظام انسانی کائنات کا خنزیر ترین نظام میں ڈھلتا چلا گیا، جسکے اثرات آج عروج پر ہیں)
    • مجاہدین کا قیام
      ـ(افغانستان مٰن روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کے لیے امریکہ کو ایک چونچلے کی ضرورت تھی۔ وہ چونچلہ سعودی عرب کے ایک بزنس میں اوسامہ بن لادن کی سی آئی اے میں تربیت سے شروع ہوا اور امریکہ اسلحہ اور سعودی ریالوں کی بارش میں جنرل ضیا کے مذہبی اور عسکری حلقوں کی تربیت میں مجاہدین کی صورت معرضِ وجود میں آیا۔ یوں مجاہدین وہ  ”ہیرو” تھے جو افغانیوں کے لیے روس سے لڑے۔ مجاہدین نے امریکی اسلحے، سعودی ریالوں اور پاکستان فوجی تربیت سے روسیوں کو ہزیمت تو دی اور واپس جانے پر مجبور تو کیا مگر ساتھ ہی پاکستان کے لیے مستقبل میں طالبان کے صورت میں ایک ایسا ناسور پیدا کر دیا جس نے پاکستان کو تادمِ تحریر دہشتگردی کی بد ترین صورتحال میں ملوث رکھا ہوا ہے)
    • نظامِ مصطفیٰ کے نام پر دین کو مذاق بنانا
      (جنرل ضیا نے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے نظامِ مصطفیٰ کے اجرا کا شوشا چھوڑا۔ یوں تاریخ میں پہلی بار تمام مذاہب کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے نظامِ مصطفیٰ کے نفاذ پر کام کرنے کو کہا۔شریعت کورٹ بناکر اس پر اپنی مرضی کے علما مسلط کر دئیے۔  مگر ساتھ ہی علما کو 4 شعبوں سے دور رہنے کا حکومت دیا: ان میں ایک عائلی قوانین جو قادیانیوں نے ایوب کے دور میں بنوائے تھے ان کو نہیں چھیڑ سکتے ۔۔۔ یوں یہ نظامِ مصطفی کی تکرار ایک شوشے سے زیادہ نہ بن پائی) 
    • مذہبی میں انتہا پسندی کے عروج کو ہوا دینا
      (آج پاکستان میں جو مذہبی انتہاپسندی عروج پر ہے اسکی ابتدا ضیاالحق دور میں عروج پائی۔ اور ضیاالحق نے امریکہ پر یہ باور کرنے کے لیے کہ اسکی حکومت محظ ایک عسکری ڈکٹیٹرشپ نہیں اس میں عوام عناصر بھی موجود ہیں اس نے دین کا بھرپور ٹیکا لگایا)
    • اوجھڑی کیمپ کا واقعہ
    • الطاف حسین کی تشکیل
    • شاہنواز بھٹو اور میرمرتضیٰ بھٹو کا قتل
    • انسانی تاریخ کے خنزیرترین سیاسی دماغ نوازشریف کو سیاست میں مسلط کرنا اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا
      (ضیاالحق نے پنجاب کو اپنے پنجوں میں مضبوطی سے جکڑنے کے لیے نوازشریف کو سڑکوں سے اٹھا کر پنجاب کا وزیرخزانہ لگا دیا۔ نوازشریف کے خاندان کا اس وقت تک لاہور میں کافی اثرورسوخ تھا جو اس نے خوب استعمال کیا۔ جب تک ضیاالحق زندہ رہا نوازشریف اسکی جوتیاں چاٹتا رہا اور “ہرملنے والی وزارت سے فائدہ اٹھاتا رہا”۔۔۔ پھر 1988 میں ضیاالحق کے حادثے میں انتقال کے بعد پہلے انتخابات مین مسلم لیگ ہی کے پرچم تلے انتخابات لڑے مگر مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی۔ اسکے بعد نوازشریف نے مسلم لیگ میں دھڑے بازیاں شروع کیں اور سازشوں سے اس لیگ کو توڑ کر اپنی الگ پارٹی مسلم لیگ ن کے نام سے بنیاد رکھی۔ مگرنوازشریف جان چکا تھا کہ بے نظیر عوام کی مقبول ترین لیڈر ہے اور اسکو ہرانا ممکن نہیں ہو گا تو اس نے اس خوف سے کہ اسکی نئی پارٹی کے لوگ کہیں بے نظیر کے پاس نہ چلے جائیں چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤسز، مری کے ہوٹلوں اور دوسری پرتعیش جگہوں پر اپنے ممبران اور بیوکریسی کے دوسرے لوگوں کا ضمیر خریدنا شروع کر دیا ہے۔ پیسے اور عورت کے وجود کا بے تحاشہ استعمال ہوا۔ پورن فلمیں بنی جو آج تک نون گینگ کی سیاست میں استعمال ہو رہی ہیں)
    • بے نظیر کی حکومت کو متزلزل کرا کے نوازشریف کو مسلط کرانا
      ـ(1988 میں بے نظیر کی حکومت سے لیکر 1997 تک اسٹیبلشمنٹ نے کبھی نون گینگ اور کبھی بی بی کی پشت پناہی کرتے ہوئے سیاست میں “اب ہم اب تم” کی سیاست شروع کی)
    • پھر ان دونوں کے ایک دوسرے کے خلاف لڑانا
    • طیارہ سازش کیس
      (پھر جب دیکھا کہ نوازشریف ہاتھوں سے نکل رہا ہے تو اسکے خلاف طیارہ سازش کیس میں اسکی حکومت کا تختہ الٹ دیا)
    • نوازشریف کو پھانسی کی بجائے ڈھیلیں اور این آر او دلوانا
      (فوجی ڈکٹیٹر مشرف نے احتساب پر کڑا زور دیا مگر پاکستان کی تاریخ کے خنزیرترین سیاستدان نوازشریف کو پھانسی دینے کی بجائے این آر او دیا جس نے پاکستان کی بنیادوں کو بری طرح کمزور کیا اور سیاست میں ایک ایسی غلاظت کا وجود رکھا کہ کوئی کسی کا احتساب نہیں کر سکے گا)
    • پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں ملوث کرنا جس نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا اور ابھی تک اسکے اثرات موجود ہیں
      (جس طرح روس کیخلاف ضیاالحق نے امریکہ اور سعودیہ کے ساتھ ملک مجاہدین کو تشکیل دیا اب امریکہ انہی مجاہدین جو اب طالبان بن چکے تھے، اور جنکا سربراہ وہی سی آئی اے کا ایجنٹ اوسامہ بن لادن تھا، اب اسکو ختم کرنے کے لیے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ مشرف ایک ایسی صورتحال  میں تھا کہ اگر وہ اس امریکہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو شاید پاکستان بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آ جاتا کیونکہ ہمارا جنم جنم کا دشمن ملک بھارت ہر ممکن طور پر امریکہ کو اس پر رضامند کرنے کی کوشش میں تھا کہ پاکستان پر بھی حملہ کرے۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاکستان کو ایسا نقصان ہوا ہے جو آج تک اپنا اثر دکھا رہا ہے)
    • بے نظیر کا قتل
      (کہنے والے کہتے ہیں بے نظیر کا قتل مشرف نے کروایا ہے۔ میری سیاسی بصیرت اسکو ماننے سے مکمل طو پر انکار کرتی ہے۔ بے نظیر کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرف تمام جانب سے عتاب سے گزررہا تھا۔ اس کے لیے کوئی بھی غلط قدم اٹھانا بہت برا ہوتا۔ لہٰذا اتنا بڑا قتل اسکے لیے حرفِ آخر ہوتا۔ ساتھ ہی ان حالات کو مدِنظر رکھنا چاہیے کہ بے نظیر کا قتل کس مقام پر ہوا ہے: راولپنڈی کے اس مقام پر جو فوج کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر مشرف کو بے نظیر کا قتل ہی کرانا ہوتا تو وہ کم از کم اس جگہ کا انتخاب ہرگز نہ کرتاجبکہ بے نظیر کا قافلہ تقریباً سارا پنجاب گھوم پھر کر اپنی آخری حدود تک پہنچ رہا تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جس جیپ میں بے نظیر بیٹھی ہوئی تھی وہ بلٹ پروف تھی۔ اور تمام راستے میں بے نے اس جیب سے باہرقدم نہیں نکالا۔ اس جیب کی چھت پر خاص کر ایک سوراخ کرایا گیا تھاتاکہ بے نظیر اس سے نکل کر اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلا کر جواب دیتی مگر یہ چھت سارے پنجاب بند رہی اور عین اس وقت جب وہ اس علاقے میں داخل ہوئی اسے اٹھ کر باہر نکلنے کا مشورہ دیا گیا۔ عین اسی وقت ایک بندہ جیب پر سوار ہوا جس نے بے نظیر کو گولی ماری۔ ایسا سستا کھیل فوج نہیں کھیلتی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ صرف ایک بندہ کو تھا: آصف علی زردای!!!! زرداریوں نے بھٹوؤں کی سیاسی بساط پر قبضہ جمانے کے لیے بہت پہلے کا کھیل کھیلا ہوا تھا۔ دعابھٹو کے مطابق اسکے باپ اور چچے کے قاتل زرداری ہیں۔ اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے اس کھیل کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ زرداری ہی نے بے نظیر کا قتل کروایا۔ اگر بے نظیر قتل نہ ہوتئ تو زرداری کی اوقات آج بھی اس کتے سے زیادہ نہ ہوتی جو مالک کے پاؤں کے ساتھ چمٹ کر اپنا وجود کے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔سیاست میں فائدہ دیکھا جاتا ہےنقصان نہیں اور زرداری سے بڑا شاطر انسان کوئی نہیں!
    • عدلیہ پر ہاتھ ڈالنا
    • بگتی کا قتل
    • لال مسجد کا واقعہ
      (اوپر کے تینوں واقعات یعنی عدلیہ پر ہاتھ ڈالنا، بگتی کا قتل اور لال مسجد کا واقعہ۔۔ میں ان تینوں میں مشرف کا زبردست حامی ہوں۔ پاکستانی عدلیہ انسانی کائنات کی خنزیر ترین عدلیہ ہے۔ مشرف نے ان کرپٹ ججز پر ہاتھ ڈالا جو اسکا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ چوہدری افتخار ایک انتہائی غلیظ اور منافق چیف جسٹس تھا۔ زبردست بے ایمان، اور امیروں کا دلال۔ عدلیہ پر نون گینگ نے زبردست شہرت کمائی اور ان منافق ججز کی بحالی کے لیے لانگ مارچز کیے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013 کے انتخابات میں چوہدری افتخار کی سرپرستی اور اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد سے زبردست دھاندلی کرائی گی اور عمران کو جیتے ہوئے الیکشن میں شکست دلائی۔ بگتی ریاست پاکستان کے خطرہ تھا، اس نے اپنے غنڈے پال رکھے تھے جو پاکستان کی عمارات کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کے خلاف کام کرنے میں مصرف تھا۔ اس کا بیٹا ہندوستان چلا گیا اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کام کرتا رھا۔مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ نامعلوم افراد کے نام پر بہت سارے انسانوں کا قتل کرانے میں انہیں لاپتہ کرنے میں بھی فوج ملوث رہی ہے۔ 
    • 2013 کے الیکش کو بدترین دھاندلی سے بدلوانے میں مدد دی
    • پشاور پبلک آرمی کا واقعہ
      (کہتے ہیں کہ پشاور میں پبلک آرمی اسکول میں 150 معصوم بچوں کا بھیانک قتل طالبان نے کیا تھا۔ مٰیں اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ یہ اس دور اور ان حالات کی بات ہے جب 2013 کے انتخابات میں شدید ترین دھاندلی ثابت ہونے جانے باوجود نوازشریف کی حکومت انصاف کرنے کے حق میں نہیں تھی اور عمران خان کے 127 دن کے دھرنے نے حکومت کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کر رکھ دی تھی۔ اس وقت حکومت ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ کو ایک ٹرننگ پوائنٹ کی ضرورت تھی۔ وہ ٹرننگ پوائنٹ اس دہشتگردی کی صورت میں انکے ہاتھ لگا۔ تمامتر حالات کو سمجھنے کے بعد میرا دعویٰ ہے کہ یہ بھیانک ترین واقعہ بھی اس وقت کی حکومت اور انکی سرپرستی کرنے والوں کی ایما پر ہوا)
    • عمران خان کی حکومت کو امریکہ کے حکم پر گرانا
      (عالمی سطح کے مبصرین اور مشاہدین کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین الیکشن 2018 کے تھے جب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی۔ مگر ان الیکشن میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے زبردست دھاندلی ہوئی اوران بے شمار سیٹوں پر جہاں پی ٹی آئی رات تک جیت رہی تھی صبح وہاں انہیں حیرت ناک طور پر شکست ہو گئی۔ یہ اس لیے کیا گیا کہ اسٹیبلشمٹ کسی بھی طور عمران خان کو فل مجورٹی نہیں دلوانا چاہتی تھی۔ اگر عمران خان کے پاس کل پاوور ہوتی تو وہ اس فرسودہ نظام، اسکی آبیاری کرنے والے کرپٹ ترین سیاستدان، دونوں کرپٹ پارٹیوں یعنی نون گینگ اور زرداری گینگ کے لیے ، عدلیہ کے لیے، بیوکریسی کے لیے اور خود فوج کے لیے خطرہ ہوتی۔ لہذا اسے مجبور کر دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرے جو اسی خنزیر سیاسی نظام کر حصہ تھیں اور جو خود کرپٹ تھیں۔ مگر اسکے باوجود عمران خان نے ان مافیاز پر ہاتھ ڈالا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اسکا بہترین ترین دوست جہانگیرترین جو بذاتِ خود شوگر مافیا کا حصہ تھا، وہ اس سے الگ ہو گا اور اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے کئی ایک ممبر لے گیا۔ اسکے باوجود عمران خان نے ہمت نہ ہاری اور امریکہ اور عربوں  سے پنگا لے کر روس کی جانب ہاتھ بڑھانا چاہا – ایک بار پھر پاکستان میں بھٹو کے بعد ایک ایسا لیڈر پیدا ہوا جسے امریکہ نے اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اور اسے فوج کی سرپرستی میں ایک خنزیر ترین اور ناجائز طور پر ختم  کرا کے انہیں خنزیروں کو اس ملک پر مسلط کرادیا جنہیں عوام انتخابات میں دھتکار چکی تھی۔ 
    • اور پھر تسلیم کر لینا کہ فوج سیاست میں ملوث رہی ہے، جسکا انکار فوج ہمیشہ کرتی رہی تھی!
      (جنرل باجوہ جس کے سر یہ تہمت جاتی ہے کہ اس نے اس خنزیر کھیل کو کھیلنے کی اجازت دی اور اسکی سرپرستی کی، نے اپنی الوداعی تقریر میں تسلیم کیا کہ فوج پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی کرتی رہی ہے اور فروری 2022 میں فیصلہ کیا کہ اب فوج سیاست میں مداخلت نہیں کریگی۔ ساتھ ہی اپنے جانشین  جنرل عاصم منیر احمد کو تاکید کردی کہ سیاسی معاملات میں دخل کرنا غداری ہے۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز اور شدید منافقت سے بھرا ہوا بیان ہے۔ اول تو یہ کہ فوج اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کی سیاسی نظام میں دخل اندازی کر کے پاکستان کے نظام کر تباہ کیا ہے اور اپنی من مانی کے مطابق چلایا ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کر گندا کرنے والی درحقیقت فوج ہی ہے۔ اور اب انہوں نے اس گناہ سے توبہ کر لی ہے!!!!!
      دوسرا یہ کہ اگر یہ غداری ہے تو پچھلے 75 سالوں سے جو غداری فوج کرتی چلی آئی ہے اسکا حساب کون دیگا؟ سقوطِ ڈھاکہ کا حساب کون دیگا؟ بار بار سول حکومتوں کو گرانے کا حساب کون دیگا؟

    پاکستان کی آزادی کے 75 میں سے کم و بیش 64 سال تک پاکستان میں تین قوتوں کی حکومت رہی ہے: فوجِ، پی پی پی اور نون لیگ! پی پی پی اور نون لیگ بھی فوج ہی کے سیاسی تخم کی پیداوریں ہیں۔ بھٹو جنرل ایوب کا لاڈلا تھا! نوازشریف جنرل ضیا کا لاڈلا تھا!  اس لحاظ سے پاکستان میں فوجی سیاست ہی حکمرانی کرتی رہی ہے۔ 64 سالوں میں ان تین بڑے خنزیروں نے پاکستان کو دن رات کمزور کیا، پاکستان کے خزانے کو لوٹا اور پاکستانی عوام کو ذلت اور رسوائی کی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ آج ہمارا معاشرہ ایک انتہائی کھوکھلا اور بے جان معاشرہ ہے جہاں جس کی کچھ اپروچ ہے وہ ہر بند سے آزاد ہے۔ وہ ہر جائز ناجائز طو پر اپنے مفادات حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کو اس بات کی رتی برابرپرواہ نہیں کہ یہ حلال ہے کہ حرام! کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب تک عدالتیں موجود ہیں جو انصاف کے تقاضے انسان کی جیب کا سائز دیکھ کر کرتے ہیں، جب تک اس ملک میں کرپٹ خنزیر سیاست ، عدالت، شجاعت پر برجمان ہیں، جو خود کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں اسوقت تک اس کرپٹ معاشرے میں کوئی ان پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک اس ملک کی پارلیمنٹ میں ملک کی تاریخ کے بدترین بدمعاش، چور، ڈاکو، لٹیرے اور کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں وہ اس نظام کو کچھ نہیں ہونے دیتے۔ اس نظام میں جس میں ملک کا چیف آف آرمی اسٹاف کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کے اثاثوں کا جوابدہ نہیں ہوں، جس نظام میں ملک کی دو کرپٹ ترین سیاسی جماعتوں کے سربراہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی بیویوں بیٹیوں بہوؤں کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں اس ملک میں کس کی جرأ ت ہے کہ وہ کسی کا احتساب کر سکے؟ وہ عدالتیں احتساب کریں گی جس کا چیف جسٹس بھی یہی کہتا ہے کہ میں اپنی بہو، اپنی بیوی کی جائدادوں کا جوابدہ نہیں ہوں؟

    حالات یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کو مفلوج کرنے میں ان تین خنزیروں (پاکستانی فوج، پی پی پی اور نون لیگ) کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ کام کر رہا ہے۔ ملک میں تعلیم معیار اسقدر بدحالی کا شکار ہے کہ تعلیم حاصل کرنا بوجھ سمجھا جاتا ہے ، غریب غربأ تو شاید علم حاصل کرنے سے کترانے لگے ہیں کہ جب پڑھ لکھ کر بھی بدحالی کا شکار رہنا ہے تو بہتر ہے کہ بچوں کو بچپن ہی سے اپنے دھندے میں لگا دیا جائے۔ اسقدر تعلیمی بدحالی ان تینوں خنزیروں کو اس لیے راس ہے کہ انکے بچے یورپ میں تعلیم حاصل کر کے اسی عوام پر سیاست کرتے ہیں اور پاکستانی فوج ان کو پروٹیکشن دیتی ہے۔ پی پی پی اور نون گینگ اس نظام میں جرائم کا بیج بوتے ہیں اور پاکستانی فوج انکے گناہوں پر انکی پشت پناہی کرتی ہے۔ یہ ایک بھیانک تکون ہے جس نے پاکستانی نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی فوج کے خلاف بولو تو امن سکون خطرے میں ہے، کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف بات کرو تو جمہوریت خطرے میں ہے، علماؤں کے خلاف بات کرو تو اسلام خطرے میں ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نظام تباہ کیا گیا ہے!

    میں اکثر یہ جملہ کہتا ہوں کہ اس معاشرے کی بنیادی اینٹیں ٹہڑی رکھی گئی ہیں، اب آسمان تک یہ دیوار ٹہڑی ہی بنے گی! وہی ہو رہا ہے۔ جو بندہ اس نظام کو بدلنا چاہتا ہے وہ آج اس ملک کا سب سے بڑا مجرم ہے اور جو مجرم ہیں وہ محاسب ہیں!!!

    عام پاکستان اپنی سفیدپوشی میں رہتے ہوئے قیامت کا انتظار کرے!

     Chief of Army Staff (Pakistan), Asim Munir, General Qamar Javed Bajwa, Raheel Sharif, Pervez Musharraf, Imran Khan, Nawaz Sharif, Zardari, PTI, Muslim League N, PPP

    بقلم: مسعود

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • #ChaloChaloGujranwalaChalo

    ChaloChaloGujranwalaChalo
    پاکستان مسلم لیگ کل یعنی 16 اکتوبر 2020 کو گوجرانوالہ میں ایک جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ جلسے کا مقصد “پاکستان اور پاکستانی عوام کو ایک عوام دشمن حکومت سے نجات دلانا ہے”. – ہنسئیے مت اور آگے پڑھئیے! ChaloChaloGujranwalaChalo
    نون لیگ اور انکے حامیوں کا جن میں پاکستان پیپلزپارٹی اور  فضل الرحمن خاص طور پر قابلِ ذکر ہے.کا موقف ہے کہ مہنگائی سرچڑھ کر بول رہی ہے اور اس لیے حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ پاکستان کو نوازشریف جیسا مضبوط اور پائدار وزیراعظم چاہیے.جو ان مشکلات سے ملک کو نکال سکے۔۔۔۔۔ (پھر سے ہنسئے مت آگے پڑھیے)۔

    ملافضل الرحمن کا اول تو کوئی موقف ہے ہی نہیں.اور اگر ہے تویہ کہ ملک میں شریعت نافذ نہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت اس ملک کو ریاستِ مدینہ بنانے میں کامیاب ہو سکی ہے.۔۔۔۔ (کہا نا ہنسئے مت اور آگے پڑھئے)ChaloChaloGujranwalaChalo

    نون لیگ کے ایک بہت بڑے حامی پاکستان پیپلزپارٹی بھی ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر پریشان ہے. اور سمجھتی ہے کہ اس کا حل صرف اور صرف پی پی پی کے پاس ہے۔۔۔ (صاحب آپ ہنسنے سے باز نہیں آئینکے) ChaloChaloGujranwalaChalo

    ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں .کہ پاکستان میں انتخابات کا زور شور تھا۔ ان دنوں نون لیگ اور انکے رہنما پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی نون لیگ کو سرتاپا ننگا کیا کرتے تھے .اور انکو برے درجے کا کرپٹ، نااہل اور ملک دشمن قرار دینے میں کسر نہیں اٹھا رکھتے تھے۔. یہاں تک کہ اس صدی کی سب سے جھوٹی عورت مریم نوازشریف اپنے خطبوں میں لوگوں کا اکسایا کرتی تھی. کہ جو ووٹ عمران کو دیا جائے گا. وہ دراصل زرداری کو جائے کیوںکہ زردار عمران بھائی بھائی ہیں۔ ChaloChaloGujranwalaChalo

    فضل الرحمں کو ان اتخابات میں بدترین شکست ہوئی! ساتھ سی پی پی پی اور نون لیگ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب  فضل الرحمن نے دیکھا کہ وہ پارلیمنٹ سے بھی باہر ہو گیا ہے اور اسکے اپنے لگژری ویلا اور عیش و عشرت چھوڑنی پڑ رہی ہے تو اسنے بدترین سازشورں کے جال بننا شروع کر دیئے۔ ChaloChaloGujranwalaChalo

    کبھی وہ اپنے بیٹے کو اسمبلی میں اسپیکر لگوانے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا تھا. اور جب ہر مقام پر شکست ہوئی تو اس نے اپنے بیٹے اور دوسرے ارکان جو اسکی جماعت کی پارلیمنٹ میں تھے ان کو سازشوں پر لگا دیا۔. کبھی وہ پارلیمںٹ کے ڈسک کے سامنے نماز شروع کر دیتے، کبھی موٹرویز کو جام کر کے نماز شروع کر دیتے،. کبھی اسمبلیوں میں اودھم مچا کر کاروارئی کو روک دیتے۔ ChaloChaloGujranwalaChalo ChaloChaloGujranwalaChalo ChaloChaloGujranwalaChalo

    باہر فضل الرحمن نے اپوزیشن کیساتھ اور کو ساتھ ملا کر ملک گیر ہنگامے اور پرتشدد کاروائی کرنے کو کہا –. مگر اس میں بھی ناکامی ہوئی۔

    الغرض وہ کونسا حربہ ہے جو فضل الرحمن نہیں استعمال نہ کیا ہو؟ کبھی اپنی “فوجیں” تیار کر رھا تھا کہ ہم “جہاد” کریں گے۔. انسان پوچھے کہ اس نے اپنی ساری زندگی میں کوئی ایک عمل ایسا کیا ہو جس اسلام اور پاکستان کے حق میں ہو،. کوئی ایک؟ ChaloChaloGujranwalaChalo

    کبھی یہ عورتوں کی حکومتوں کیخلاف فتوے دے رھا تھا .اور انہیں عورتوں کے قدموں میں جا بیٹھا،. کبھی امریکی سینیٹر این پیٹرسن کی قدم بوسیاں کی کہ مجھے وزرات دلوا دو. اور دس سال کشمیر کمیٹی سے حرام کھا کر اب ایک اور عورت کے قدموں میں جا پڑا ہے۔ ChaloChaloGujranwalaChalo

    نوازشریف جو جیل میں تھا .اپنی جھوٹی اور من گھڑت بیماری کا بہانہ بنا کر چھ ہفتے کی چھٹی لیکر ججز اور اعلیٰ حکام کے ضمیر خریدنے کا عمل شروع کر دیا۔. مگر جب اس میں بھی انکی دال نہ گلی تو نوازشریف نے اپنے نام نہاد ڈاکٹر سے جعلی رپورٹٰیں بنوا کر عدالت سے چھ ماہ کی رخصت لیکر لندن بھاگ گیا –. اب کوئی ڈیڑھ سال ہونے کو ہے وہ لندن سے واپس نہیں گیا۔ ChaloChaloGujranwalaChalo ChaloChaloGujranwalaChalo ChaloChaloGujranwalaChalo ChaloChaloGujranwalaChalo

    اس دوران عدالت نے اسے پاکستان کا اشتہاری قرار دیدیا ہے۔. لندن میں رہتے ہوئے نوازشریف نے اپنا ایلچی آرمی چیف کے پاس بھیجا کہ ہم پر رحم کیا جائے .اور ہماری مدد کی جائے۔ حالات بتاتے ہیں کہ آرمی نے مکمل طور پر سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ اپیل مسترد کر دی ہے۔. ادھر نوازشریف کے بھائی شہبازشریف کو نیب نے جیل میں ڈال دیا ہے۔

    اب نون لیگ کے پاس کیا بچا ہے؟

    نون لیگ اب ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے. جس میں کبھی ایم کیو ایم تھی: مرکزی لیڈر ملک سے بھاگا ہوا ہے اور باہر بیٹھ کر بیرونی سازشوں پر وہ اپنی عوام کو طیش دلا رھا ہے۔. جب کہ مریم نوازشریف نے اپنی ساری توجہ اپنے چچا کیساتھ انٹر-پارٹی لڑائی کے بعد ایک خطرناک عمل پر مرکوز کر دی ہے۔

    اس میں تو کسی قسم کا کوئی مغالطہ نہیں ہے. کہ نون لیگ، پی پی پی اور فضل الرحمن کے پاس اس وقت اپنی کرپشن اپنے جرائم اور اپنی ناکامیوں سے بچننے کا کوئی طریقہ نہیں رھا۔.  کسی بھی جرم پیشہ سیاسی لیڈر چاہے. وہ نوازشریف ہو، زرداری ہو، ملا فضل ہو یا کوئی بھی انکا ہمدرد انکے پاس اپنے جرام کا دفاع کرنے کے لیے عدالت میں کوئی ایسا ثبوت نہیں جسے پیش کر سکیں۔ عدالتوں میں ناکامی کے بعد انکے پاس ایک ہی حربہ باقی ہے۔

     لہذا انکی کوشش ہے کہ ملک میں شدید قسم کی افراتفری پھیلائی جائے،. حالات کو شدید خراب کیا جائے اور اسکے لیے اگر دھشتگردی کا سہارا لینا پڑے. تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔

    اسکے لیے نوازشریف لندن سے بیٹھ کر وہی کردار ادا کریگا جو الطاف حسین نے کراچی کو تباہ کرنے لیے کیا تھا۔. ادھر پی پی پی نے ہندوستانی پشت پناہی پر ایک لابی تیار کی ہے. جو ملک میں صوبائی نفرت کے زہر کو پھیلارہی ہے۔. اسکے لیے انہیں نے اعلیٰ قسم کے صحافیوں اور قلمکاروں کو بھی تیار کیا ہے. جو دن رات سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ملک میں صوبائی تعصب، نفرتوں کے جال اور افراتفری کی دعوت پھیلانے میں مصروف ہیں۔

    اس ضمن میں پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤس بھی پیش پیش ہیں۔

    ایک بہت بڑی تعداد میں وہ صحافی جنکے لفافوں کا حجم کبھی اچھا خاصا تگڑا ہوا کرتا تھا،. جو کبھی عوامی پیسہ پر ہوائی جہازوں میں مفت سفر کیا کرتے تھے. اور اسکے عوض نوازشریف کے وضو کے حال کا تذکرہ لکھا کرتے تھے آج کل وہ خاصے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں،. وہ بھی پیش پیش ہیں۔ ان کے ٹویٹس انکی مفافقت کی بولی بولتے ہیں۔

    میں نے بہت عرصہ پہلے اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ نوازشریف کے لیے پنجاب بہت بڑی جاگیر ہے! اسکو پنجاب کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ اسی طرح زرداریوں اور بھٹوؤں کے لیے سندھ بہت بڑی جاگیر ہے! آج کے حالات بتا رہے ہیں کہ میری وہ بات درست تھی!

    دونوں جماعتیں پاکستان میں بدامنی اور بدحالی، افراتفری اور دھشتگردی کی انتہا تک جا سکتی ہیں. کیونکہ جن کے پاس عدالتوں میں اپنے جرائم کا دفاع کرنے کا کوئی چارہ نہ رہے. وہ بالاخر اپنی کرپشن بچانے کے لیے ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی انتہا تک جا سکتے ہیں – .کل کا جلسہ اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے!   عمران خان کی بات سوفیصد درست ثابت ہوتی ہے کہ جب ان کرپٹ لوگوں پر ہاتھ پڑے گا تو یہ ایک ہو جائیں گے کیونکہ انکی کرپشن ایک جیسی ہے انکے مفادات ایک جیسے ہیں!

    ورنہ ساری امت جانتی ہے کہ آج کے حالات پہلے بھی تھے۔ ساری امت جانتی ہے پچھلے دور کسی بھی طرح آج سے اچھے نہیں تھے۔ اور وہ لوگ جو پچھلے 40 سالوں سے ناکام چلے آ رہے ہیں، وہ جنہوں نے اپنی اولادوں کو بینامی اور حرام کی دولت پر پالا ہے وہ اس قوم کے دکھ درد کو محسوس کریں گے؟؟؟؟؟؟


    بقلم: مسعود

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • PPP – Past, Present, Future

    PPP – Past, Present, Future

    گزرے سالوں کی پاکستان ٹیلیوژن کی ایک انتہائی خوبرو! اور ہردل عزیز نیوزریڈر ماہ پارہ صفدر کی ایک ٹویٹ دیکھی،! جسکے ایک جملہ پر یہ بلاگ لکھا گیا ہے!

    پہلے ٹویٹ ملاحظہ کیجیے: 

    اس ٹویٹ میں جو جملہ ہائی لائٹ کیا گیا ہے وہ ہے!جس میں وہ پیپلزپارٹی کو زرداری کی پارٹی کہتی ہے” توجہ طلب ہے اور اس بلاگ کی بنیاد ہے!

    میں نے محترمہ ماہ پارہ سے استفسار کیا کہ! “کیا موجودہ پیپلزپارٹی زرداری ہی کی پارٹی نہیں ہے؟”! اسکا جواب انہوں نے نہیں دیا مگر انکی ٹویٹ اور خاموشی اس بات کا اظہار ضرور کرتی ہے !کہ آپ کی سیاسی ہمدردیاں پیپلزپارٹی ہی کیساتھ ہیں۔! میں جو ہمیشہ حقائق تلاش کرنے کا عادی ہوں،! سوچا کہ پیپلزپارٹی کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ عوامی پارٹی جسے! ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے خون پسینے سے سینچا، آج وہ کہاں کھڑی ہے۔
    انتہائی بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ تکمیلِ پاکستان کے فوری بعد قائدِاعظم وفات پا گئے! جس سے اس نومولود ملک میں سیاسی انخلا پیدا ہو گیا۔! لیاقت علیخان نے اس انخلا کو پر کرنے کی کوشش کی مگر 1951 میں انکے قتل نے اس انخلا کو مزید سخت کر دیا۔! تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں مسلم لیگ سیاسی استحکام پیدا کرنے میں ناکام رہی۔! اسکے بعد جتنی بھی سیاسی حکومتیں قائم ہوئی وہ سیاسی دماغ کی عدم موجودگی اور مفادپرستی کی وجہ سے ناکام رہیں۔! جسکی ایک بدتر مثال فیروزخان نون کی وقتی حکومت تھی۔! فیروزخان نون بذاتِ خود ایک Land Lord تھے لہذا وہ کسی قسم کے Land Reform کے حق ہی میں نہیں تھے۔! مفاد پرستی اسقدر تھی کہ پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں بنا جو کہ دوسال بعد ہی ناکامی کی صورت میں تحلیل کر دیا گیا!

    اس وقت متحدہ پاکستان میں اصل جمہوری تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی! فقط ایک ہی سیاسی جماعت تھی مگر اس کی بنیادیں مشرقی پاکستان میں تھیں۔! عوامی لیگ جس نے بعد میں سقوطِ ڈھاکہ میں ایک اہم رول ادا کیا۔! مغربی پاکستان میں وہی مسلم لیگ تھی جو تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کا حصہ بنی مگر! جو قائدِ اعظم اور لیاقت علیخان کی وفات کے بعد سیاسی قوت کھو چکی تھی۔

    ذوالفقارعلی بھٹو 1956 میں اسکندرمرزا کی حکومت میں کیبنٹ کے ممبر چنے گئے۔! ایوب خان کا ذوالفقارعلی بھٹو پر ایک خاص کرم تھا۔! ایوب نے اپنے دورِ حکومت میں بھٹو کو مختلف عہدوں پر عنایت بخشی جو 1965 میں وزارتِ خارجہ پر آ کر ٹھہری۔! سن 65 کے جنگ کے بعد تاشقند معاہدے پر ذوالفقارعلی بھٹو اور صدر جنرل ایوب خان کے درمیاں ہوا سرد ہونا شروع ہو گئی! اور بھٹو نے ایوب کی برملا ملامت کرنا شروع کر دی۔

    بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ میں شمولیت کا اظہار کیا! مگر عوامی لیگ کی جانب سے بھٹو کو کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔! خود کو عوامی لیگ کی رکنیت سے معذور دیکھ کر بھٹو نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔! اور یوں 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967 میں لاہور میں ڈاکٹرمبشرحسن کے گھر پر منعقد ہونے والے! ایک اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام ہوا۔ اسی موقع پر بھٹو کو اسکا پہلا چئیرمین چنا گیا۔

    اس نئی جماعت کا منشور ایک بنگالی کمیونسٹ جے اے رحیم نے 9 دسمبر 1967 کو پیش کیا جو تھا:

    اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، اشتراکیت (سوشلزم) ہماری معیشت ہے، طاقت عوام کی ہے

    جماعت کا اہم مقصد طبقات کی تقسیم کو ختم کر کے ایک ایسا سوشلسٹ نظام قائم کرنا تھا! جس میں تمام افراد کو یکساں مواقع دستیاب ہوں۔! مگردرحقیت یہ جماعت تین مختلف نظام کا مربہ بن گئی جس میں

    1) مارکسزم 2) اسلامی سوشلسزم اور 3) جاگیردارنہ نظام کے عناصر موجود تھے۔

    ایوب خان نے 1968 میں اپنی کامیابیوں کا جشن منایا !مگر ساتھ سے ملک بھر میں ایک طرف طلبا اور دوسری جانب بیروزگاری کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔! اسی دوران ملک کی اسوقت تک کی سب سے بڑی اور مضبوط ترین سیاسی جماعت نیشنل عوامی لیگ میں نظریات کی پھوٹ پڑ گئی! اور ایک طرف چین کی ہمدرد میں مولانا بھاشانی اور دوسری جانب سویت یونین کے حق میں ولی خان کے راستے جدا ہو گئے۔! اس سے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا! اور ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو یہ خلا بھر سکتا تھا۔
    بھٹو نے انتہائی چابکدستی سے وہ خلا پورا کیا! اور جب بھاشانی کے انقلابی عزائم ایک جانب اور ولی خان کے ڈیموکرٹیک عزائم دوسرے جانب آپس میں لڑ مر رہے تھے! بھٹو نے عوام کی دکھتی ہوئی رگوں کو انتہائی شاندار طریقے کی چھیڑا۔! روٹی کپڑا اور مکان، سوشل جسٹس، بھوکوں کو کھانا، بے گھروں کو گھر اور ایسے دوسرے نعروں نے عوام کے دل جیت لیے۔! اور عوام نے بھٹو کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔  اور یوں پیپلزپارٹی راتوں رات ایک زبردست سیاسی جمیعت کے طور پر ابھر آئی۔

    پاکستان میں پہلے آزاد الیکشن کا انعقاد 1970 میں ہوا۔! الیکشن میں شمولیت کے لیے پیپلزپارٹی میں اختلاف پایا گیا۔! ہالہ کانفرنس میں جماعت کے کچھ لوگوں نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے پر زور دیتے ہوئے انقلابی طور پر حکومت ہتھیانے کا مشورہ دیا! جبکہ دوسری جانب جمہوری تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کو ترجیح دی گئی۔

    الیکشن 1970 میں ہوئے اور  مغربی پاکستان میں تو پیپلزپارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی! اور 138 میں سے 81 نشستیں جیت گئی مگر مشرقی پاکستان میں پی پی پی کو ایک بھی نشست نہ ملی۔! جبکہ عوامی لیگ کو 160 سیٹیوں پر کامیابی ملی۔ یوں ہر جمہوری تقاضے سے مجیب الرحمٰن کو حکومت بنانے کا حق تھا۔! مگر بھٹو نے یہ حق اسے دینے سے انکار کرتے ہوئے دو جماعتی حکومت بنانے کا مشورہ دیا۔! یعنی مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی حکومت بنائے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ – جو کہ مجیب الرحمٰن نے ٹھکرا دیا۔

    دونوں جانب کی طاقت کی ہوس اسقدر عروج پر تھی کہ اس سے سقوطِ ڈھاکہ ناگزیر ہو گیا۔ (پڑھے یہ بلاگ)

    سقوطِ ڈھاکہ ہو گیا۔! ملک تقسیم ہو گیا اب بھٹو نے مغربی پاکستان جو اب پاکستان بن گیا اسے ایک معاشی طاقت بنانے کا عزم کیا۔! اس ضمن میں بھٹو نے وہ قدم اٹھایا جو بھٹو کی زندگی کی شاید سب سے بڑی غلطی اور گناہ کے مترادف ثابت ہوا۔! بھٹو نے تمام اداروں کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ تمامتر انڈسٹریز کو بھٹو نے قومی تحویل میں لے لیا۔! جو کسی بھی طور ایک جمہوری عمل نہیں کہلوایا جا سکتا بلکہ یہ ایک مارکسٹس یا کمیونزسٹ عمل تھا۔! اگر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی اقتصادی حالت کو ضرب لگی تو بھٹو کے اس عمل نے اس شدید کچل کر رکھدیا۔

    خارجہ سطح پر بھٹو کو بہت کامیابی ملی مگر داخلی سظح پر ملکی حالات ابتری کا شکار ہوتے چلے گئے۔! اس دوران جو پی پی پی کی کامیابیوں کی لسٹ تھی اس میں:

    • ملک کا پہلا آئین مرتب اور نافذ کیا
    • پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا
    • پاکستان اسٹیل ملز اور ہیوی انڈسٹریز شروع کیں
    • دوسری اسلامی سربراھی کانفرنس کامیابی سے منعقد کی
    • پاکستان کی جنگی قیدیوں کو واپس لایا گیا
    • قادیانیوں کوائینی طور پر غیرمسلم قرار دینا
    بیشک بھٹو اور پی پی پی عوام میں مقبول تھی مگر بھٹو سے کچھ فعش قسم کی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔
    جس میں بلوچستان کی منتخب حکومت پر فوجی یلغار، اپنی ہی پارٹی کے اندر دھڑے بازیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے! اسٹیبلشمنٹ کو ان پر مقرر کرنا، صنعتوں پر سوشلزم کا نفاذ بغیر کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، جاگیرداروں کو پارٹی میں جگہ دے دی گئی،! اندرونی مخالفتوں کو دشمنی سمجھ لیا گیا اور ملک معراج خالد جیسے ساتھی کو نکال دیا! اور جنرل ضیاالحق جیسے تیسرے درجے کے جنرل کو اٹھا کر چیف آف ارمی اسٹاف لگا دیا۔ اسکے علاوہ بھٹو کی شرابی نوشی عوامی سطح تک مشہور تھی۔
    مگر ان تمام نقائص کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول ترین سیاسی جماعت تھی۔! اسکا مظاہرہ 1977 کے عام انتخابات ہوا جب پی پی پی کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی! اور اپوزیشن جو دراصل کچھ غیراہم، حادثاتی اور معمولی سیاسی جماعتوں کا مجمعوعہ تھی، نے بری طرح شکست کھانے کے بعد زبردست دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کر دئیے۔! بھٹو نے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مخالفین کو عہدوں کا لالچ دیا اور کچھ کیساتھ اس کی ڈیل ہو گئی مگر جنرل ضیاالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

    اگلے دو سال یعنی 1977 سے 1979 تک پی پی پی کے لیے سخت ترین سال ثابت ہوئے! یوں ضیاالحق کی ڈکٹیٹرشپ میں پی پی پی کے راہنماؤں کو کڑی سزائیں دی گئی۔! جسکی انتہا خود بھٹو کی پھانسی پر ہوئی۔ ضیاالحق نے اپنے استبدادی دور میں بینظیر اور اسکی والدہ نصرت بھٹو پر شدید ظلم و ستم کیے۔

    سن 82 میں بینظیر کو پی پی پی کی چئیرپرسن چنا گیا۔ بینظیرننے اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے Movement for the Restoration of Democracy کے نام سے مہم شروع کی۔ پی پی پی کے اکثر وہ رکن جو پی پی پی کے مرکز سمجھتے جاتے تھے وہ اس بات سے ناخوش تھے کہ ایسی جماعتیں جن کے ساتھ ہمارا منشور، ہماری سوچ، ہمارا مشن نہیں ملتا انہیں اس ایم آر ڈی میں شامل نہیں کرنا چاہئے تھا – مگر انکی  شنوائی نہ ہوئی تو کچھ نے پی پی پی کو چھوڑ دیا۔

    ضیاالحق کا 18 اگست 1988کو قتل ہو گیا۔! ضیا کے قتل کے بعد بینظیربھٹو پاکستان آئیں اور عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔! شاید اس لیے بھی کہ عوام بھٹو کے قتل اور ضیا کی ڈکٹیٹرشپ کو ناجائز سمجھتی تھی،! مگر اس لیے بھی ملکی حالات ابتر سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے اور امید تھی! کہ بینظیر ایک سلجھی ہوئی سیاستدان کی طرح ان حالات پر قابو پائے گی۔

    وطن واپسی پر بینظیر کی شادی ملک کے ایک کرپٹ ترین بزنس مین آصف علی زرداری سے کر دی گئی۔  سن 1988 کے انتخابات میں بینظیر کو کامیابی حاصل ہوئی۔ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اسکے ساتھ ہی بینظیر جو کہ ایک جمہوری لیڈر تصور کی جا رہی تھی اس نے عہدوں کی لوٹ مار مچا دی۔ یوں  خزانے کی چابیاں اپنے پاس رکھ لیں، اپنی ماں نصرت بھٹو کو  منسٹر اور اپنے سسر حاکم علی زرداری کو  ایک دوسرے اہم عہدے پر فائز کر دیا۔ اس غیر جمہوری عمل سے  ممتازعلی بھٹو سمیت اہم ارکان نے پی پی پی کو  pro-capitalist کہہ کر خیرآباد کہہ دیا۔
     ادھر ایک نئی طرز کی سیاست کا آغاز ہو چکا تھا۔! وہ سیاست لاہور کے ایک لوہار جسے ضیاالحق نے سڑکوں سے اٹھا کر پنجاب کا وزیر لگا دیا تھا اسنے شروع کی تھی۔! نوازشریف نے پاکستان مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھتے ہوئے چھانگا مانگا کے! حسین ریزوٹ اور مری کے پرتعیش ہوٹلوں میں سیاستدانوں، ججز، بیوکریسی! اور اہم شخصیات کے سروں کیساتھ ضمیروں کی قیمتیں لگانا  شروع کر دی۔! پیسوں کے بدلے میں وفائیں خریدنے کی سیاست شروع ہو گئی! اور ججز سمیت بیوکریسی راتوں رات امیر بننے کی ہوس میں اپنے ضمیروں کا سودا کرنے لگی۔
    اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ بینظیر کی پہلی حکومت کو کبھی کام کرنے کا موقع دیا ہی نہ گیا تھا! اور 1990 ہی میں اسکی حکومت کو  معاشی بدحالی،  سکیورٹی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں برخاست کر دیا گیا۔! 1990 کے الیکشن میں پی پی پی نے بائیکاٹ کیا اور یوں نوازشریف تقریباً بلامقابلہ حکومت تھامنے کا حقدار بن گیا۔ ! پی پی پی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہی کردار ادا کیا جو پہلے نون لیگ کر چکی تھی! یعنی حکومت خلاف ریلیاں، کرپشن اور ناکامی کے الزامات اور کسی بھی طور حکومتِ وقت کو کام نہ کرنے دیا۔! اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ نوازشریف کی حکومت کو برخاست کر دیا گیا اور الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔
    جیسا کہ اب ایک ٹرینڈ بن چکا تھا! کہ ہم تم پر اور تم ہم پر الزامات لگاؤ اور حکومت کرو۔

    1993 کے الیکشن میں پی پی پی کو کامیابی حاصل ہوئی! مگر انہیں حکومت بنانے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کا سہارا لینا پڑا۔! فضل الرحمٰن جو پہلے عورت کی حکومت کے خلاف فتویٰ جاری کر چکا تھا،! اب اسکو قبول کر کے حکومت کا حصہ بن گیا۔ اس سے پی پی پی کے اندر شدید اختلافات پیدا ہو گئے! اور پی پی پی 3 دھڑوں میں بٹ گئی: 1) بھٹوازم  2) پی پی پی پارلیمنٹارئینز 3) شیرپاؤازم

    ان میں بھٹوازم جسکا قائد بینظیر کا بھائی میرمرتضیٰ بھٹو تھا۔! واقعہ یہ ہوا کہ مرتضیٰ بھٹو کے مطابق آصف علی زرداری جو ایک انتہائی کرپٹ اور بدمعاش صفت آدمی تھا،! پی پی پی کی سیاست میں شدید ترین اثرانداز ہو رھا تھا! اور بینظیر اپنے شوہر کی ہمدرد ہونے کے ناطے سے اسکو برداشت کرتی چلی گئی۔! مرتضیٰ بھٹو  اس کو بھٹو کی پی پی پی کی موت کی مترادف سمجھتا تھا،! مگر بینظیر اس سے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔! ان اختلافات نے مرتضی بھٹو کو راستے جدا کرنے اور ایک نئی پارٹی بنانے پر اکسایا۔! جو کہ سندھ میں انتہائی پاوورفل بن گئی جو پی پی پی کے سخت خطرہ بننے لگی۔ 
    یہ خطرہ پی پی پی اور بینظیر اور خاص کر زرداری کے لیے! دردِ سر بنتا گیا جسکا نتیجہ 1996 میں میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل پر ختم ہوا۔    یہ قتل ایک مشہور “پولیس مقابلہ” تھا! جسکے بعد زرداری خاص کر اور پی پی پی عام طور پر پولیس مقابلوں کے لیے مشہور ہو گئی۔! یہ بات زبانِ عام پر ہے کہ میرمرتضیٰ بھٹو کا قتل زرداری نے بینظیر کی اجازت سے کروایا ہے۔! اس قتل کے بعد پی پی پی کے اندر شدید اختلافات جنم لیتے رہے! اور اکثر ایسے ممبرز جو ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی کو زرداری کی پی پی پی بنتے دیکھکر! اور دن رات تباھی کی جانب جاتا دیکھکر راستے جدا کرتے ہوئے دوسری پارٹیوں میں شریک ہوتے رہے۔

    مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ 1997 میں الٹا۔! اسکے بعد بینظیر، زرداری  خودساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے دبئی جبکہ نوازشریف مشرف سے این آر او کے تحت ڈیل کر کے جدہ بھاگ گیا۔!  ضیاالحق کی ڈکٹیٹرشپ کے مقابلے میں مشرف کی استبدادی حکومت لاکھ درجہا بہتر تھی۔!  جب بینظیر اور نوازشریف کو اپنی اپنی جلاوطنی میں محسوس ہوا کہ ہمیں کچھ کرنا ہو گا ورنہ پاکستان سے ہماری سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا! تو دونوں جنم جنم کے دشمن اور ایک دوسرے پر توہ لعنت کرنے والوں نے لندن میں بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت کا ڈھونگ رچانا مناسب سمجھا۔ 

    یوں ایک کے بعد دوسرا میثاقِ جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پاکستان آ گئے۔ مگر!        زرداری کی سیاست کا انداز وہی ہے! جو نوازشریف کی سیاست کا ہے: کرپشن، منی لانڈرنگ، لوٹ مار، کچھ لگاؤ زیادہ کھاؤ، قتل، الزامات، ضمیروں کی خریداری،! اعلیٰ عہدوں پر موجود لوگوں سے رشتہ داریاں تاکہ وہ قید ہو سکیں،! عزتوں کی لوٹ مار اور بیوکریسی کو ایسا پھنسا دو کہ تمہارے سامنے زبان نہ کھول سکے۔! اس پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے  زرداری کے سامنے ابھی بینظیر موجود تھی جو ابھی بھی پی پی پی کی لیڈر تھی۔!  لہذا پی پی پی پر وہ مکمل قبضہ جو زرداری چاھتا تھا، وہ ابھی ناممکن تھا۔
    میرمرتضیٰ بھٹو کی طرح بینظیر کا بھی پراسرار قتل ہو گیا!

    بینظیراپنی الیکشن کمپئین میں مصروف تھی! اور ایک بلٹ پروف گاڑی میں سفر کر رھی تھی! جب اسے  غالباً شیریں رحمٰن جو بینظیر کیساتھ اس بلٹ پروف گاڑی میں موجود تھی،! راولپنڈی میں ایک مقام پر جہاں بہت سارے پی پی پی کے وورکرز موجود تھے،! چھت سے نکل کر ہاتھ ہلانے کو کہا۔   اس دوران ایک بندہ جو وہیں سے بینظیر کی بلٹ پروف گاڑی کے عقب پر چڑھ کر فائرنگ کرتا ہے۔! بینطیر شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لائی جاتی ہے! جہاں پر وہ وفات پا جاتی ہے۔ اس قتل کا بھی کبھی حقیقی معنوں میں سراغ نہیں لگایا گیا ! اور نہ کبھی اسکو کریدنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    جبکہ بینظیر کے پروٹوکول آفیسر اسلم چوھدری کے مطابق رحمٰن ملک اور بابر اعوان کی ملی بھگت اور سکیورٹی کی کمزوریوں کی وجہ سے  یہ واقعہ پیش آیا۔! قتل کس نے کروایا کیوں کروایا یہ سب راز ہے مگر سب لوگ حالات کو پڑھ سکتے ہیں! کہ یہ قتل کس کے حق میں تھا۔ وہ آج بھی سراٹھا کر چل رہے ہیں۔  بینظیر کا قتل اور مشرف کی استبدادی حکومت:! بالکل وہی حالات جو 1988 میں تھے جب بے نظیر پہلی بار حکومت میں آئی۔

    اس بار عوام نے اپنی تمامتر ہمدریاں پی پی پی کو دیدیں! اور یوں زرداری اپنے ناپاک مقاصد میں بالآخر کامیاب ہو گیا! جس کے لیے اس نے کبھی جیلیں برداشت کی تھیں۔!  زرداری اور نوازشریف نے اس میثاقِ جمہوریت کو، جو لندن میں تحریر پایا،! عملی جامہ پہناتے ہوئے  9 مارچ 2008 کو  اعلان کیا کہ آئندہ دونوں پارٹیاں ملکر کام کریں گی۔! درحقیقت یہ “پانچ سال تیرے پانچ سال میرے” کی طرزِ حکومت کا اعلان تھا۔! اس کے لیے دونوں نے ایک دوسرے کو بظاہر کتا بلا کہنے جبکہ اندر اندر چوما چاٹی کرنے کا ایعادہ کیا۔!  یہ اعلان تھا کہ تم اپنے پانچ سال میں جو کرو، وہ تمہیں روا ہے! اور جو ہم کریں وہ ہمیں جائز ہے نہ تم ہمارا احتساب کرو نہ ہم تمہارا احتساب کریں۔

    حاصل کلام

    درحقیقت وہ پی پی پی جو ایک سوشلسٹ اور سیاسی جماعت تھی! جس کی بنیاد ذوالفقارعلی بھٹو نے رکھی، بینظیر نے اسے دائیں بازور کی سیاست سے نکال کر لبرل بنانے کی کوشش کی! جبکہ وہ زاردی تک پہنچتے پہنچتے ایک انتہائی غیرسیاسی، پرتشدد، قتل و غارت سے بھرپور، منی لانڈرنگ سے لبریز،  وڈیرہ ازم سے بھری ہوئی پارٹی بن کر رہ گئی۔! سیاست نام کی کوئی بات اس میں موجود نہ رھی اور یہاں تک کہ اسکا اپنا کوئی خاص منشور تھا نہیں رھا۔! ووٹ لینے کی صرف اور صرف ایک کارڈ استعمال کیا جاتا ہے: شہیدبھٹو اور شہید بی بی! اسکے علاوہ کوئی ایسا سیاسی منشور جس پر یہ پارٹی عوام سے بات کر سکے موجود نہیں!

    درحقیقت پاکستان کی عوام عمران خان کی موجودگی میں پی پی پی کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوئی ہے۔! جس انداز میں عمران خان نے پی پی پی اور نون لیگ کو بے نقاب کیا ہے،! اس سے عوام میں شدید شعور پیدا ہوا ہے۔! عوام جان چکی ہے کہ پی پی پی کا جو “روٹی کپڑا اور مکان” کا اعلان تھا، آج بھی پی پی پی اسی سے عوام کو پھدو لگا رھی ہے۔! عوام جان چکی ہے کہ اس پارٹی کے رہنما اور خاص کر زرداری کرپشن اور بدمعاشی کا سرغنہ بن چکا ہے! اور پاکستانی عوام کو عموماً اور سندھی عوام کو خاص بیوقوف بنانے کے اور کچھ نہیں کیا۔!  یہی وجہ ہے کہ آج سن 2020 میں جب عمران خان کی حکومت ہے،! پی پی پی اور نون لیگ ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنی اپنی سیاست کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ! اس کے لیے وہ عمران خان کے خلاف شدید ترین پراپوگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔
    پیپلزپارٹی میں آج بھی اچھی سیاسی سوچیں موجود ہیں! مگر ان کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ وہ ذہنی غلام ہیں۔! وہ جانتے ہیں کہ زرداری کے سامنے وہ زیر ہیں۔! وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان پر انکی اولادوں پر زرداری اور “سن آف زرداری” ہی حکومت کریں گے۔! جس سیاسی جماعت کی یہ حالت ہو گی اسکے قابل ترین سیاسی نطف خود کی ایک pamper میں لپٹے بچے کے آگے غلام رکھیں وہ سیاسی جماعت تباہ ہو جاتی ہے۔! اسکا تقدس مر جاتا ہے۔ اسکی سوچ سے غلامی نہیں نکل سکتی اور اگر انکی اپنی سوچ سے غلامی نہیں نکل سکتی تو وہ عوام کو کیا خاک ریلیف دیں گے؟؟؟! اعتزازاحسن جیسے معتبر اور قابل سیاستدان کی موجودگی میں ایک غیرسنجیدہ، ناتجربہ کار اور غیرسیاسی بلاول بھٹو کو پارٹی کا ہیڈ بنا دینا! اعتزازاحسن کی عمربھر کی سیاسی کمائی پر لعنت کے مترادف ہے۔ مگر مؤرثی سیاسی جماعتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے! جو بالآخر ایک سمجدار قوم میں آ کر سیاسی جماعت کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔!

    اور پی پی پی اپنی سیاسی موت کے قریب پہنچ چکی ہے۔! اسوقت پی پی پی فقط ایک سندھی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔! جسکی وجہ وہ وڈیرہ ازم ہے جسے بھٹوز اور زرداریز حرام کھلاتے ہیں تاکہ وہ عوام پر دباؤ رکھیں اور انہیں کو ووٹ دیں۔! سندھ میں اکثر مقام پر بھٹو  کے نام کے سوا ووٹ دینا گناہ سمجھا جاتا ہے! کیونکہ اس عوام کو تعلیم سے اس قدر دور رکھا گیا ہے! کہ وہ خود سے سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں، انہیں بھوکا رکھا گیا ہے! کہ انکی دوڑ صرف اور صرف وڈیرے کی جاگیر تک ہو، جہاں سے اسے ووٹ کے عوض روٹی ملے۔ Pakistan Peoples Party, PPP, Zulifqar Ali Bhutto, Benazir Bhutto, Bilawal Bhutto, Pakistan Politics PPP –

    بقلم: مسعودؔ

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Kheer Pakk Rahi Hai

    Kheer Pakk Rahi Hai

    جس برق رقتاری سے #لوہار ہائیکورٹ نون گینگیوں کو آزادی کے پروانے جاری کر رھی ھے! وہ کس بات کی غمازی کر رھا ھے؟

    ذرا حالات کا جائزہ لیتے ھیں۔۔ Kheer Pakk Rahi Hai Kheer Pakk Rahi Hai Kheer Pakk Rahi Hai

    وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر بڑے وثوق کیساتھ اعلان کیا ھے! کہ وہ کسی کو کسی قسم کا کوئی این آر او نہیں دینگے۔

    اگر وزیراعظم کے لہجے میں لچک ہوتی! اور مجرموں کو کوئی امید لاحق ہوتی! تو شاید حنیف عباسی جیسے پالتووں کی قربانی دی جا سکتی تھی۔! مگر ایسا کوئی کچھ نظر نہیں آرھا لہذا اب وقت ھے اپوزیشن کے پلان بی کا۔

    پلان بی کا آغاز ا

    پلان بی کی ابتدا مولانا منافق فضل الرحمٰن کی نوازشریف ملاقات سے شروع ہوتی ھے۔! اس میں بدکردار اپوزیشن کی کوشش ہو گی کہ جتنے بھی دھتکارے ہوئے لوگ ھیں! اب وہ سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر حکومت دشمن کاروائیوں میں ملوث ہونگے۔

    اس میں خودکار بم دھماکے ہونگے! جو ملک میں افراتفری پھیلانے کے کام آئینگے۔! یہ الزامات لگائے جائیں گے کہ حکومت دہشتگردیوں کو روکنے سے نااھل ھے لہذا استعفی دے۔

    ان کاروائیوں میں لاہورہائیکورٹ کا کردار سب سے اہم! اور سب سے بدکردار ہو گا! جو نون لیگیوں کو کھلم کھلا معافی عام دے گی۔! اس سے نجات پانے والے حنیف عباسی جیسے پالتو ایک مسلسل اور انتھک سازش کے لئے! استعمال کئے جائیں گے جس میں پراپوگنڈا عروج پر لایا جائے گا۔

    اس پراپوگنڈا میں وہ بیوکریسی جسے نوازشریف اور زردادری نے حرامخوری کے ذریعے پچھلے 35 سال سے پروان چڑھایا ھے! وہ حرکت میں لائی جائے گی۔ ضمیرفروشی کا جو بیج چھانگا مانگا کے جنگلوں میں بویا گیا تھا،! وہ اب ثمر دینا شروع کریں گے۔

    خریدوفرخت کی اشیا میں ناجائز اور غیرقانونی اضافہ کیا جائے گا۔! قیمتیں آسمانوں سے باتیں کریں گی! اور جب جب جہاں جہاں حکومت حکومت ایکشن لے گی! یہ ضمیرفروش بیوکریسی ذخیرہ خوزی کرنے لگ جائے گی۔ 

    میڈیا

    ان کاروائیوں میں ایک اہم اور مرکزی کردار میڈیا ادا کرے گا۔

    وہ صحافتی طوائفیں جو نوازشریف کیساتھ سفر میں شامل تھیں! اور وہ صحافتی طوائفیں جو لفافے نہ ملنے پر حلال کھانے پر مجبور ہو چکے ھیں! وہ ابھی سے اپنے اپنے چینلوں کے ذریعے اور خاص کر سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ کا پلندہ بن کر اس رزق کو حلال کر رھے! ھیں جو انہیں کھلایا جا چکا ھے۔

    اگر کوئی صحافی اپنے پروگرام میں اسحق ڈار جیسے ناسور! اور غلیظ اور وطن دشمن اور مفرور انسان کو مدعو کر کے ملکی معیشت پر سوال جواب کرتا ھے! تو وہ صحافی دشمن وطن کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا! وہ صحافی بدکاری اور حرامخوری کی سب سے بدترین مثال ھے چاھے! وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی چینل سے وابستہ ہو!

    اسحق ڈار اس ملک کا ناسور ھے! مجرم ھے! اس کا ملکی مسائل پر بات کرنا ھی ملک سے غداری کے مترادف ھے!

    لابی

    حکومت کو چاہیے ایک مفصل لسٹ جاری کر دے! جس میں اہم ترین اشیأ خورد و نوش کی قیمتیں سرکاری سطح سے متعین کر دی جائیں۔! اگر کوئی اس لسٹ سے بڑھ کر قیمت مانگے تو صارفین سیٹیزن پورٹل سے! اس دکاندار کی شکایت کریں جس پر سرکاری کاروائی کی جائے۔

    موجودہ حکومت کی کامیابی اور ناکامی نہ ہی تو خارجہ پالیسی سے ہو گی! نا اقتصادیات سے! ان دونوں میں پی ٹی آئی کی حکومت بخوبی کامیاب ہو گی۔! سب سے اہم داخلہ پالیسی اور اس میں خاص کر وہ بیوکریسی ہے! جنکی دوسری نسل اس حرامخوری اور ضمیر فروشی میں ملوث ہو چکی ہے! جس کی ابتدأ نون گینگ نے چھانگا مانگا میں کی تھی۔

    جو قوم کم محنت کر کے زیادہ کھانے کی عادی ہو چکی ہو! اسے حق حلال پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔! اگر وہ اپنے روش بدلے گی تو چیخے گی، اور اس چیخ و پکار میں بہت سارے ایسے کام کرے گی! کہ اس سے بچ سکے: مہنگائی، افراتفری اور پراپوگنڈا یہ سب مؤثر ہتھیار ہونگے۔ !آنے والے دنوں میں سندھ اور پنجاب سے  پراپوگنڈا کی ایک زبردست لابی اٹھنے والی ہے۔ 

    اس لابی میں سابق ججز کے ساتھ منشیات فروش، بیوکریسی کے خاص بندے، میڈیا کی صحافتی طوائفیں، سوشل میڈیا پر نون لیگ اور پی پی پی کی اہم ترین “خواتین” جو چادر اور چاردیواری کا نعرہ بلند کریں گی۔

    Lahore High Court, PMLN, PPP, PTI, Pakistan Siyasat Politics, Social Media of Paksitan,

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم: مسعودؔ

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    Kheer, Propoganda, Pakistani Media, #PPP, #PMLN

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • Pakistan Election 2018

    Pakistan Election 2018
    انتخابات 2018 – ابھی تک کی کاروائی

    انتخابات مکمل ہوئے!  جیتنے والے جیت گئے ہارنے والے اپنی عادت سے مجبور دھاندلی دھاندلی دھاندلی کا رونا روتے رہے۔۔۔! ان کا رونا اپنی جگہ مگر ایک دلچسپ صورتحال جنم لے چکی ہے۔۔۔!

    وہ دلچسپ مرحلہ حکومت سازی کا ہے۔! پی ٹی آئی 116 سیٹوں کیساتھ اس وقت سب سے بڑی پارٹی ہے۔! مگر حکومت سازی کے لیے ہنوز 21 مزید سیٹیوں کی ضرورت ہے،! جس کے لیے اتحادی پارٹیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ شروع کرچکی ہے۔ Pakistan Election 2018

    وفاق میں شاید پی ٹی آئی کو اتنی بڑی مشکل پیش نہ آئے جتنی بڑی مشکل پنجاب میں حکومت سازی کی ہو گی۔Pakistan Election 2018

    پنجاب میں ابھی بھی نون لیگ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی ہے مگر پی ٹی آئی صرف 6 نشستوں کے ساتھ بہت قریب ہے۔Pakistan Election 2018

    جسکا مطلب یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں مگر اسکے لیے انہیں دوسری پارٹیوں سے اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔Pakistan Election 2018

    وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت اس بات کی ضمانت ہو گی! کہ بہت سارے آزاد امیدوار جو پنجاب اسمبلی کی لیے کامیاب ہوئے ہیں، وہ حکومت بنانے والی پارٹی کیساتھ ہونگے۔!

    اسکے علاوہ مسلم لیگ ق یکدم ایک بہت اہم اتحاد ی یونٹ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔! مگر چونکہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ق  سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہوئی ہے اس لیے وہ انکے اتحاد کے زیادہ قریب ہیں۔Pakistan Election 2018 Pakistan Election 2018 Pakistan Election 2018 Pakistan Election 2018 

    نون لیگ کی موت؟

    اس وقت نون لیگ کے لیے صورتِ حال یہ ہے کہ انکی سیاسی موت بالکل قریب ہے۔! یہی وجہ ہے کہ حمزہ شریف اب عمران خان کو ماضی کی باتیں یاد دلا کر پنجاب میں حکومت بنانے کی بھیک مانگ رھا ہے۔ نون لیگ کے پاس آپشن کیا ہے؟!

    سب سے پہلا اور سب سے اہم آپشن پی پی پی ہے!

    ایک بار پھر شہباز شریف زرداری کے قدموں میں جا پڑا ہے کہ میری پارٹی کو سیاسی موت سے بچا لو!

    مگر زرداری کے پاس پنجاب میں کل ملا کر 6 سیٹیں ہیں، جو کہ ناکافی ہے۔

    نون لیگ کو 29 آزاد امیدواروں کا گھراؤ کرنا ہوگا اور ساتھ مسلم لیگ ق کے چوھدری شجاعت حسین کے بھی پاؤں دھو کر پینا ہونگے! اگر انہیں پنجاب میں اپنی حکومت برقرار رکھنا ہے۔!

    پنجاب

    پی ٹی آئی کے لیے پنجاب بہت سخت اہم ہے۔

    اگر عمران وہ تبدیلی لانا چاھتا ہے جو اسکا وژن ہے! اور جس تبدیلی کا وعدہ عمران نے عوام سے کیا ہوا ہے تو اسکے لیے پنجاب کی حکومت ناگزیر ہے،۔

    یہ بات انہوں نے صاف طور پر بیان کر دی  ہے! کہ پنجاب کی حکومت کے معاملے میں کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔!

    پی ٹی آئی نے یہ بھی کہہ دیا ہے! کہ پی پی پی کیساتھ کسی معاملے میں کوئی سوجھ بوجھ ہو ہی نہیں سکتی!

    مسلم لیگ ق کیساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی نون لیگ کو، لہذا یہ کھیل بہت دلچسپ ہو چکا ہے۔!

    باقی صوبوں ، پختون خواہ  جہاں پی ٹی آئی کی سپریم منڈیٹ ہے کہ انہیں کسی سے پوچھنے کی بھی ضرور ت نہیں، اسی طرح سندھ میں پی پی پی کی حکومت پکی ہے! اور بلوچستان میں بی این پی ، پی ٹی آئی کیساتھ مل کر حکومت بنالے گی۔!

    سب سے دلچسپ مرحلہ پنجاب کا ہے، جو پچھلے 35 سالوں سے نون لیگ کا اکھاڑا بنا رہا ہے۔! اسی لیے نون لیگ نے ابھی اس دھمکی کا بھی استعمال شروع کر دیا ہے! کہ اگر پی ٹی آئی نے ہمیں پنجاب میں حکومت نہ بنانے دی تو ہم انہیں وفاق میں بھی حکومت نہیں بنانے دیں گے، وہ کیسے؟!

    اس کے لیے شہبازشریف کو ایک بار پھر زرداری کی گود گرم کرنا پڑے گی۔! اسکے پاؤں تو پنجاب کے معاملے میں چاٹ چکا ہو گا، اب اس کی پوٹی بھی دھونے کی پیش کش کرے گا کہ ہم وفاق میں ایک مخلوط حکومت بنا لیتے ہیں۔!

    تبدیلی

    مگر اسکے لیے صرف زرداری ہی نہیں بلکہ دوسری بہت ساری چھوٹی پارٹیوں کو بھی منانا پڑے گا انکا جھوٹا بھی کھانا پڑے گا۔! انکے پیمپرز بھی بدلنے پڑیں گے مگر اقتدار کے ہوس کے لیے نون لیگ کیا نہیں کر سکتی؟؟؟؟؟!

    میں نے اوپر نون لیگ کی سیاسی موت کی بات کی ہے، وہ کیسے ہو گی؟

    اگر عمران پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے! اور تبدیلی کے جو وعدے عوام کے ساتھ کیے ہیں! اگر انکا 30 فیصد بھی اس طرح عمل میں لایا گیا! جس کا ایمپیکٹ عوام پر پڑااور عوام نے اسے محسوس کیا! کہ ہاں واقعی ایک مثبت تبدیلی آئی ہے تو یہ نون لیگ کی موت کا پروانہ ہوگا۔!

    اگلے الیکشن میں نون لیگ وائٹ واش ہو سکتی ہے! ساتھ یہ بھی یاد رکھیے کہ نون لیگ ابھی بہت سارے کیسز کا سامنے کرنے والی ہے۔۔۔

    اس لیے پنجاب ایک بہت اہم بساط ہے۔

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    مسعودؔ  –  25 جولائی 2018

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    imran khan becomes prime minister. Pakistan Election 2018. Pakistan Tehreek-e-Insaaf.

    Shab-o-roz

  • Siyaasi Gath’jorr

    Siyaasi Gath’jorr

    پیش لفظ:

    لندن، دبئی اور جدہ میں خود ساختہ جلا وطنی گزارنے کے بعد، بینظیر بھٹو اور ںوازشریف نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا فیصلہ کیا، چارٹرآف ڈیموکریسی کے نام پر، اس پر میرے الفاظ

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    Meri Tehreer – Political: Siyaasi Gath’jorr

    سیاستدان

    ۱۹۸۸ سے لیکر ۱۹۹۹ تک یکے بعد دیگرے خزانۂ پاکستان کو لوٹنے، اپنی اپنی ناخلف اولادوں کا یورپ میں مستقبل بہتر کرنے ، ملک میں خلفشاری اور بدحالی کی انتہا کرنے کے بعد اور! ایک دوسرے پر الزمات کی بارشیں برسانے کے بعدآج دونوں لیڈریعنی نوازشریف اور بینظیربھٹو بیرونِ ملک عوام کی خلفشاریوں سے دور بیٹھ کر! عوام کے ’دکھ درد کو سہتے ‘ ہوئے ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ Siyaasi Gath’jorr

    بظاہر شیر اور گیدڑ ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے لگے ہیں! مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ شیر کون ہے اور گیدڑ کون؟

    ہماری یہی تو ایک بدقسمتی رہی ہے کہ جب ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھ میں اختیارات ہوتے ہیں انہیں اتحاد کرنے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اُس وقت ایک دوسرے کا ’سلام‘ بھی زہرلگتا ہے! جب اقتدار کا نشہ اتار دیا جاتا ہے تو انہیں اتحاد بھی یاد آجاتا ہے! اتفاق پر پرزور تقریریں ہونے لگتی ہیں، عوام کا درد بھی یاد آجاتا ہے! کوئی ان نام نہاد لیڈروں کا گریبان پکڑ کر ان سے یہ پوچھ سکتا ہے! کہ جب آپ لوگوں کے پاس ۱۲ سال حکومت رہی اُس وقت آپ نے ایسا کیوں نہ سوچا؟! اُس وقت ایک دوسرے کو برخاست کرنا! ایک دوسرے پر غلیظ ترین الزامات لگانا! ایک دوسرے کو تاریخ کا بدترین ڈاکو کہنا! ہی اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے تھے! تو اب ہم کیسے یقین کر لیں کہ آپ کا اتحاد ہمارے ملک کی ان پڑھ اور جاہل عوام کے لیے سکون کا ساز ہوگا؟ Siyaasi Gath’jorr

    چال

    ویسے ساز تو ہوگا اور سکون کا بھی مگر یہ وہ بانسری ہوگی جو عوام کو ایک بار پھر ان کی مکاریوں سے غافل کردے گی! اور ایک ایسی میٹھی نیند سلادے گی جہاں سے ہماری عوام پھر سے بیدار نہیں ہوپائے گی! سیاسی لیڈر ہونے کا اپنا ہی نشہ ہے اور خاص کر پاکستان میں جہاں چند میٹھے الفاظ پر لاکھوں کا مجمع اکٹھا کیا جاسکتا ہے! جہاں ایری ٹیشن پھیلانا کوئی مشکل کام نہیں۔یہی وہ نشہ ہے جو نواز شریف اور بے نظیر کے سرمیں پھر سے جوش مار رہا ہے!مگر اِس بار انہیں ملک میں آکر قدم جمانے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا تو انہوں نے سوچا کیوں نہ اب جس پر ۱۲ سال تک تھوکتے رہے ہیں! انہیں اقتدار کی ہوس کی خاطر چاٹ لینا چاہیے۔ Siyaasi Gath’jorr Siyaasi Gath’jorr Siyaasi Gath’jorr 

    گٹھ جوڑ

    میں اِس گٹھ جوڑ کا بالکل مخالف نہیں ہوں! اگر یہ ہماری عوام کے لیے ایک نئی راہ لے کر آئے تو! مگر یہ تو دیوانے کا خواب ہے کہ ایک جدی پشتی سیاستدان اور ایک دولت پر بننے والا سیاستدان عوام کے لیے کسی مسیحائی کا پیغام لے کر آسکتے ہیں!کیوں کہ انہیں جب جب موقع ملا ہے انہوں نے لوٹنے کے سوا کچھ نہیں کیا! میں اس لیے بھی خلاف نہیں ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ دو پارٹیاں کبھی کسی مقام پر ایک نہیں ہو سکتیں! ان کے منشور الگ ہیں ان کی سوچیں الگ، انکے مفادات الگ!

    بلکہ پاکستانی سیاست کو استحکام چاہے! مگر یہ استحکام صرف ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے! کہ اللہ تعلی ان لیڈروں کوسیاسی چالیں چلنے کی بجائے سچے دل سے! عوام کے لیے کچھ کرنے کی توفیق عطافرمائیں (آمین)پھر چاہے کوئی سیاسی لیڈر ہو یا فوجی حکمران!

    Meri Tehreer – Political: Siyaasi Gath’jorr

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    بقلم: مسعودؔ ،  30 اپرل 2006

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze