Lekin!
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
یہ خبرسن کرچند لمحوں کے لیے انسان سکتے میں آجائے! کیا یہ موت تھی، خودکشی یا پھرقتل؟ مجرم کون ہے؟ باپ، معاشرہ، نظام یاحکومت؟
کیاحرام کی موت مرنے والوں پر انااللہ پڑھنا چاہیے کہ نہیں! اِس بات کا فیصلہ ایک عالمِ دین پر چھوڑئیے اور یہ سوچئے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے ایک شفیق باپ کو بھیڑئیے کا روپ دھارنا پڑا!
یقیناً بہت سی وجوہات ہونگی۔ کچھ ڈھکی ہوئیں کچھ ظاہر! کچھ افواہیں کچھ حقیقتیں! سچ صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات جانتی ہے! انسان صرف حقائق پر بات کرسکتا ہے اور یہی چندحقائق ہیں جو میں اپنے آرٹیکل میں لکھنے جا رہا ہوں۔
ہمارے ملک کا ایک بہت بڑاالمیہ ہے کہ آبادی زبردست تیزی سے بڑھتی جارہی ہے! وسائل اُسی رفتارسے کم ہوتے جارہے ہیں! قدرتی وسائل ابھی بھی موجود ہیں مگر استعمال نہیں کیے جارہے! جان بوجھ کر ملک میں ٹینشن پیدا کی جارہی ہے!دولت دولت کو کھینچتی ہے اور امیر امیرترہوتے جا رہے ہیں جبکہ غریب غریب تر! غربت بہت سے جرائم کو پیداکرتی ہے۔ہمارے ملک کا سب سے بنیادی مسئلہ غربت ہے۔
ایک شماریات کے مطابق پاکستان کی ۷۰ فیصد آبادی انتہائی غریب ہے! باقی تیس میں سے پچیس فیصد متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو بہت کچھ affordکرسکتے ہیں مگر پھربھی سوچ بچار کر! جبکہ ۵فیصدآبادی ایسی ہے جو واقعی امیر ہیں، جنہیں معلوم نہیں کہ پیسہ کہاں لگایا جائے!
یہی پانچ فیصد لوگ ہیں جنہوں نے نظام کو تباہ کیا ہوا ہے!حکومت کیا کرے؟ حکومتوں نے پہلے کبھی کچھ کیا ہے جو اب کرے گی؟
ستر فیصد کا معیارِزندگی درست کرنے کی نسبت ۵ فیصد کو مراعات دینا آسان ہے! ممبری، کونسلری، وزارتیں بھی انہیں پانچ فیصد نے حاصل کرنی ہیں، باقی عوام تو بھیڑبکریاں ہیں جو علم کی دولت سے بے بہرہ ہیں، انہیں جس طرف چاہیں ہانک لیں! ہزارسال کے رونے کے بعد جب چمن میں ایک دیدہ ور پیدا ہوتا ہے جو اِس جاگیردارانہ نظام کو بدلنے کی کوشش کرے تو اُسے جی حضوریاں کرنے والے الفاظ کے تانے بانے میں بن کر یاتواُسے خاموش کردیتے ہیں یا پھر خاموش کرادیتے ہیں!
حکومتیں شاید بُری نہیں تھیں، جی حضوریاں کرنے والے آستین کا سانپ ثابت ہوئے ہیں!یہ ملک جن مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اُن میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا! اِس ملک پر روزِاوّل سے ہی جاگیرداروں نے قبضہ کرلیا ہے!سرمایہ داروں نے اپنی اپنی من مانیاں کی ہیں۔ ایک شماریات کے مطابق پاکستان کی ۲۰ فیصدآبادی پڑھی لکھی ہے۔سولہ کڑوڑ کی آبادی کے ملک میں بیس فیصدآٹے میں نمک کے برابر محسوس ہوتے ہیں۔
اِن پڑھے لکھوں میں بھی اکثر کو امریکہ ، برطانیہ،کینڈا اور یورپ ویزاسکیموں کے ذریعے اغواکرلیتے ہیں! جو رہ جاتے ہیں وہ دوسرے طریقوں سے باہربھاگنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ باقی بچا کچھا جو دماغ ملک میں بچ جاتا ہے وہ اپنی اپنی زندگی کو دھکا لگانے کے لیے اپنے اپنے ضمیر، ذہن اور سوچوں کو گروی رکھ دیتے ہیں اوروہ بھی جی حضوری کا فن سیکھ جاتے ہیں اور ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتے ہیں!
ایسے میں ملک کی تعمیر کون کرے گا؟کون ہے جو اِس فرسودہ نظام کوبدلے گا؟
شاید کوئی نہیں!
حکومت اور بڑاطبقہ تویہ چاہے گا ہی نہیں، یوں محسوس ہوتا ہے گویا عوام بھی اِس نظام میں تبدیلی نہیں چاہتی۔کیونکہ عوام اَن پڑھ ہے اور اَن پڑھ اپنا حق لینا نہیں جانتا۔جب تک علم کی روشنی گھر گھر نہیں پھیلے گی، نظام میں تبدیلی نہیں آسکتی! اَن پڑھ بہت دانائی کی باتیں بھی کر لے مگر اُس کی قدر نہیں ہوتی کیو نکہ مفلس کے دماغ میں بہت سی دانائیوں کا گلا گھٹ جاتا ہے۔
انسان کی قدر علم سے ہے اور علم کی دولت سے! بات پھروہی آجاتی ہے،علم حاصل کرنے کیے لیے دولت کی ضرورت ہے۔حق تو یہ ہے کہ ایک مفلس بچارہ اسلام کے پانچ بنیادی اصولوں میں سے بھی کسی ایک پر بھی پورے طور پرعامل نہیں ہوسکتا۔غور کیجیے:
پہلا رکن نماز: نماز میں حضورِ قلب اور جمعیت خاطر ہونا لازمی ہے۔ مفلس کو یہ دونوں باتیں کہاں نصیب؟
دوسرارکن روزہ: روزہ کے لیے اچھی غذا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ خشک غذا کھا کر چند روز کے بعد روزہ رکھنا تو درکنار، وہ اُٹھ سکنے کے قابل بھی نہ رہے۔ روزی نہیں تو روزہ کہاں؟
تیسرارکن حج: حج سے تو مفلس قطعاً محروم رہتا ہے۔آج کل حج بھی پیسہ کی نمائش بن گیا ہے۔
چوتھارکن زکوٰۃ: مفلس زکوٰۃ کہاں سے دے وہ تو بیچارہ خود مستحقِ زکوٰۃ ہے۔
پانچواں رکن جہاد: جہاد میں شامل ہونے کے لیے بھی اہلِ وعیال کے لیے سال چھ مہینے کے گزارے کے لائق چھوڑکرجانا ضروری ہے، مفلس تو اِس سے بھی محروم رہتا ہے۔
ان پانچوں ارکان میں آخری تین تو مفلس کو میسر نہیں پہلے دو پر بھی برائے نام عمل کرسکتا ہے! جب غریب معاشرے میں اس قدر پسماندہ اور بے بس ہے تو بیچارہ خودکشی نہیں کرے گا؟ اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کا گلا نہیں کاٹے گا؟ حق تو یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، مگر:
مفلس کہ جس غریب کی دنیا نہیں درست
مشکل کہ اُس کے ہاتھ سے ہو کارِدیں درست
Muflis Keh Jis Ghareeb Ki Muflis Keh Jis Ghareeb Ki Muflis Keh Jis Ghareeb Ki Muflis Keh Jis Ghareeb Ki Muflis Keh Jis Ghareeb Ki Muflis Keh Jis Ghareeb Ki
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
بقلم مسعود – 27 جنوری2005[mks_separator style=”solid” height=”2″]
Muflis Keh Jis Ghareeb Ki
بھوک لگتی تو گھاس پھوس کھا لیتا، پیاس لگتی تو اپنی بکری ماں کا دودھ پی لیتا۔ مالک نے میری حفاظت کے لیے ایک کتا پالا جو میری چوکیداری کرتا۔ اِس تھانیدار کی موجودگی مجھے بہت اچھی محسوس ہوتی تھی کہ ارد گرد کوئی خطرہ ہوتا اُس سے فوراً نجات مل جاتی۔
کبھی کبار مالک کے ٹیلیوژن پر معصوم اور بے کس بکروں کی قربانیاں دیکھ کر! میرا دل دہک جاتا اور پھر یہ سوچ کر خوش ہوجاتا کہ وہ تو ٹی وی ہے! اور میں اپنے مالک کے پاس خوش ہوں ،ے! یہ مجھے کبھی ذبح نہیں کرے گا کیوں کہ میں تو اِسکی بیٹی کا بہت پیارا کھلونا بھی ہوں نا!
اچھلنا کھیلنا کودنا اور مالک کی بیٹی کا دل بہلانا یہی میرا نصب العین تھا۔
وقت گزرنے کا پتہ ہی نا چلاے! اور میں ایک سفید رنگ کا خوبصورت ہینڈسم قدوقامت والا دلکش بکرا بن گیا۔ے! اب تو بکریاں بھی دم ہلاتی ے!، جگالی کرتی میرے پیچھے آنے لگیں۔ے! اور ہم مغرورالغرور بکرا بن کر بیں بیں بیں کرتے منتیں کراتے۔ واہ ! کیا زندگی تھی!! Ley’la
مالک کے گھروالوں نے مجھے خوب نہلایا دھلایاے!، میرے سفید جسم پر خوبصورت سے پھول بنائےے! اور میرے گلے میں ہار پہنائے۔ میں سمجھا میری شادی ہونے والے ہے۔ے! سننے میں صرف اتنا آیا کہ فلاں دن نماز کے بعد!اب میں فلاں دن کا انتظار کرنے لگا۔
بہت اچھا اور حسین دن تھا، ہرطرف چہل پہل ے!، رنگ برنگے کپڑے پہنے لوگ میرے پاس آتے پیار کرتے اور دعائیں دیتے گویا کہہ رہے ہوںے! ’’ جا بیٹا ہمارا تھا تو خوش تھا اب بیوی کے ہتھے چڑھنے لگا ہے، کیاے! یہ اپنے بچوں کو بھی یہی دعائیں دیتے ہوں گے؟‘‘
میں تو پریشان ہو گیا کہ یہ کیسا نکاح خواں اٹھا لائے ہیں۔ے! اور صاحب ایسا بے تکلف نکاح خواں کے آتے ہی اُس نے اپنی قمیض اتاریے! اور مجھ پر برس پڑا۔ میری ٹانگیں باندھ کر مالک کو پکڑا دیں اور مجھے لٹا دیا۔ے! نکاح کے بعد تو انسان سیدھے ہوتے ہیں یہ مجھے ابھی سے الٹا کررہے ہیں۔ خیر صاحب جب اُس نے میرے گلے پر اپنے چھِتر جیسے ہاتھ رکھے تو مجھے احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے، یہ تو قصائی ہے۔میں نے چیخنا شروع کردیا کہ اِس خوفناک قصائی سے کوئی بچائے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ وہ جو میری شادی کا دن بننا تھا وہ دوسروں کی غذا کا دن بن گیا۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان پر رحم نہ فرماتے اور اپنے ہی بیٹوں کی قربانی دینے کا حکم دیتے توانسان بچارہ کیا کرتا؟ میں نے جب اللہ اکبر کی تکبر سنی تو مجھے انسان کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے پر فخرمحسوس ہوا۔
Ley’la
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
مسعودؔ[mks_separator style=”solid” height=”2″]
Ley’la
[mks_dropcap style=”rounded” size=”24″ bg_color=”#660000″ txt_color=”#ffffff”]میں ایک فورم سے وابستہ تھا، جہاں پاکستانیت کا پرچار کیا جاتا تھا، مگر مجال ہے پاکستان کے مسائل پر ایک بھی بات ہوتی ہو، میں نے سچ لکھنا شروع کیا، بین ہو گیا، پھر جب بحال ہوا تو دیکھا کہ ایک انڈین ولن کی موت پو بڑے بڑے تھریڈ داغے گئے مگر اس سے چند ہی دن بعد بلوچستان میں ایک انتہائی غؒیظ واقع ہوا جس پر اس فورم پر خبر تک نہ لگائی گئی، اس پر میرا خون کھول اٹھا[/mks_dropcap]
میں نے سوچا تھا کہ اپنے قلم کو خاموش کرلوں گا! اور ہر بات کو نظر انداز کردوں گا مگر میرا قلم خاموش نہیں رہ سکتا!
حالاتِ حاضرہ سیکشن میں امریش پوری کی موت کی خبر دیکھ کر بہت افسوس ہوا! اِس بات پر نہیں کہ وہ فوت ہوگیا ہے۔! بلکہ اِس بات پر کہ ہمارے ملک کے لیے اُس کا فوت ہوناکئی درجہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔! اُس کے لیے فورم پر ایک مکمل تھریڈداغا گیا۔! جبکہ بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کسی توجہ کے قابل نہیں! یہاں تک کے بریکنگ نیوز میں بھی یہ خبر جگہ نہیں پاسکی! یہاں تک کہ کسی میں اتنی توفیق نہ ہوئی کہ اس کی نسبت کسی قسم کے تھریڈ میں کوئی جملہ ہی کہہ دے۔
بہت سے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے ہونگے! کہ بلوچستان میں ہو کیا رہا ہے؟ (میڈیا زندہ باد)۔! بلوچستان کی حالت خطرناک ہوتی جارہی ہے۔! حکومت نے سوئی گیس پائپ لائنوں پر مسلسل حملوں کے نتیجے میں تین ہزار سے زیادہ فوجی جوانوں کو اُس علاقے میں ہیلی کاپٹروں سمیت تعینات کیا ہے۔! بلوچیوں کو شدید وارننگ دی ہے کہ اگر وہ ان حملوں سے باز نہ آئے !تو سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی۔! “فورم ھٰذا” کے لیے بہت معمولی خبر!
اب یقیناً پڑھنے والے یہ جاننا چاہیں گے کہ یہ حملے کیوں ہو رہے؟! جس سے گیس کی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے۔! اور بہت سی انڈسٹریز بھی بند ہوسکتی ہیں۔! ماضی میں بھی ایسے واقعات وہاں ہوتے رہے ہیں مگر اِس بار وجہ کیا ہے؟
سوئی کے علاقے میں ایک لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کو دو اور تین جنوری کے درمیانی شب زنابالجبر کا نشانہ بنا گیا تھا۔! نشانہ بنانے والے ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے۔! کہنے والوں کے مطابق یہ حرکت ڈیفنس سیکیورٹی کے ایک آفیسر اور دو جوانوں نے کی ہے۔! یہ شاید کوئی اتنا بڑا واقعہ نہ ہو (!) ایسے کئی ایک واقعات ہمارے مہذب ملک میں ہوتے رہتے ہیں !جہاں پر ہر قصور عورت کا تصور کیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر یہ واقعہ اِس سوچ کے منہ پر ایک طمانچہ ہے! کہ اگر عورتیں گھروں میں بیٹھ جائیں تو ایسے واقعات نہ ہوں۔! وہ ایک ڈاکٹر ہے اور اُس کا تقدس ہر شہری پر لازم ہے مگر جب سیکیورٹی کے باعزت مرد اِس قسم کی گھٹیاحرکت کریں گے! تو مجھے شاید بلوچیوں کے ردِّ عمل کا افسوس نہیں، اور شاید ہے بھی!
کیا یہ دوغلا پن نہیں؟؟؟؟
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
مسعودؔ (۱۳ جنوری ۲۰۰۵)[mks_separator style=”solid” height=”2″]
Doghla’pan Doghla’pan Doghla’pan Doghla’pan Doghla’pan Doghla’pan Doghla’pan
آج مغرب میں اسپورٹس کے ہر کسی میچ سے پہلے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ ہرجگہ سونامی میں متاثرہونے والوں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ لاکھوں کڑوڑں روپے اکٹھے بھی کیے جا چکے ہیں۔ میرا دل یہ دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ نہیں کہ مجھے اِس آفت سے متاثرہ افراد سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ہے اور بڑی شدت سے ہے۔
مگر میرے آنسو یورپ کی اُس بھیانک صورت پر بہتے ہیں! جو ہمارے اکثر لوگوں کی نظر میں انسانیت کے علمبردارہیں۔! کیا یہی انسانیت ہے کہ چند ایک ہزار یورپئین کے مرنے کے بعد دنیا کو ایک طرح کی state of emergency میں ڈال دیا گیا ہے؟! ہرجانب یہ پرچار کرنا شروع کردیا گیا ہے کہ یورپ کو انسانیت کی کتنی فکر ہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ یہ انسانیت اُس وقت کہاں دفن تھی! جب یہودیوں نے لبنانی مہاجر کیمپوں میں مقیم نہتے افراد کے خیموں پر بلڈوزر چلا کر انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں تھیں!! یورپ کی انسانیت اُس وقت کہاں ہوتی ہے جب فلسطینی بچوں کو ٹیلیوژن کیمرے کے سامنے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے!! یہ انسانیت اُس وقت کہاں دم توڑ رہی تھی! جب امریکی ظالم سماج ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں نہتے افغانیوں چن چن کر قتل کرتے رہے تھے!! کہاں تھی انسانیت جب ساری دنیا کے سامنے امریکہ اور برطانیہ نے عراق کی ایک بار پھر اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی!…………. شاید مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں!
انسانی جانوں کے جانے کا دکھ ہوتا ہے! مگر یہ دکھ ہمارے دلوں میں ہی کیوں ہے؟ جب مسلمانوں کے خون سے یورپ ہولی کھیلتا ہے! تو اُسے ایک ایسے انداز میں گویا وہ پھربھی حق بجانب ہے۔! مگر جب گناہوں کی بستیوں کا اللہ صفحۂ ہستی سے مٹاتا ہے! تو ہر جانب افسوس ، آہ و گریہ ، مغفرت کی دعائیں شروع ہوجاتی ہیں۔
آج چند ایک ہزار یورپیئن مرے ہیں! تو پوری دنیا میں انسانیت کا سبق دیا جارہا ہے۔! چندے اکٹھے کیے جا رہے ہیں تاکہ فحاشی کے اڈے پھر سے تعمیر کیے جا سکیں۔!پریس کا ایک ایسا زبردست جادو چلتاہے ہمارے دماغوں پر کہ ہم ہر بات کو تسلیم کرلیتے ہیں۔! مسلمانوں کو دہشت گرد کر کے قتل کرنا بھی ہمیں برداشت ہوجاتا،! مگر فحاشی کے اڈے جب ملیہ میٹ ہوتے ہیں تو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا جاتا ہے!
میڈیا کا اثر سر چڑھ کر بولتا ہے۔! مغربی ممالک میں فٹبال میچز سے پہلے فوج کی پریڈ ہو رہی ہے۔! فوج تحفے تحائف پیش کرتے ہیں۔ اور وہی میڈیا ہماری فوج کو بہت شدت سے بدنام کر رہا ہے۔ ہماری عوام میں اپنی ہی فوج کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے۔ اور ہماری جاھل عوام انکی انگلیوں پر ناچ رہی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر نامورمیڈیا والے اپنی ہی فوج پر بھونک رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کے قلم افغانستان وعراق میں مغربی فوج جن میں اکثر کرائے کے قاتل شامل ہوتے ہیں انکی سفاکیوں پر ایک جملہ تک لکھنے کی توفیق محسوس نہیں کرتے۔ ہمارا میڈیا ہماری رگوں میں وہ اندھیرا ہے جو مغربی نظروں میں خود کوفری ڈم آف اسپیچ کے علمبردار بنانے کے خواہاں ہیں۔ دراصل یہ غدار ہیں۔
مسلمانوں کا خون بہتا ہے تو کسی کو انسانیت یاد نہیں آتی۔ خود مسلمانوں کو بھی نہیں، کیوں کہ مسلمان تو ہے ہی ایک سوئی ہوئی قوم!
اپنے آپ کو پہچانو اور دنیا کے بھیانک صورت کو بھی!!
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
Duniya Ki Bhiyanak Soorat! Duniya Ki Bhiyanak Soorat! Duniya Ki Bhiyanak Soorat! Duniya Ki Bhiyanak Soorat! Duniya Ki Bhiyanak Soorat! Duniya Ki Bhiyanak Soorat!
[mks_separator style=”solid” height=”1″]
ایک محتاط اندازے کے مطابق tsunami سے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوچکی ہے اور انگنت ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ نجانے حتمی تعداد کہاں تک پہنچ جائے۔ سائنسدانوں کے نزدیک اِس کا ایک قدرتی جواز ہے، کہ زیرِآب زمین کی تہ کی پلیٹیں ہلیں اور زلزلہ بپا ہوگیا اور تباہی ہوئی۔ مگر میری سوچ کہیں اور جا اٹکی ہے۔کیا یہ محض ایک قدرتی حادثے کے سوا اور کچھ نہیں؟؟ اس قدر جانی اور مالی نقصان کسی بھی سبق کا اشارہ نہیں دیتا؟؟
تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے! کہ جب بھی کسی بھی قوم نے سرکش ہونے کی کوشش کی ہے! اللہ تعالیٰ نے اُس پر عذاب نازل کیا ہے۔! کوئی ایک مثال دیے بغیراس بات کا جائزہ لونگا! کہ اِس علاقے میں کیا سرکشی ہوئی ہے! جس کا عذاب ان غریبوں اور لاچاروں کو ملا ہے کیوں کہ مرنے والوں کی زیادہ تر تعداد غریب ہی تھے!۔ تو جواب یہ ہے کہ عذاب غریبوں پر نازل نہیں ہوا بلکہ اُن امیروں پر ہوا ہے! جو اِس علاقے میں سرکشی کا بازار گرم کرتے تھے! اورغربأ کو اس سرکشی میں شامل رکھتے تھے۔!مگر جب عذاب آتا ہے تو ہرکوئی اُس کی زد میں آجاتا ہے۔
تو پھراِس علاقے میں کون سی سرکشی سرزد ہوئی ہے؟
صرف سکنڈے نیویا (ڈنمارک، سویڈن اور ناروے) کے تقریباً دوہزار سے زیادہ افراد کے مرنے یا لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے۔! سکنڈے نیویا کے لوگ ان علاقوں میں فحاشی کو بہت عروج دے رہے ہیں۔! جوان اور بوڑھے tsunami کی زد میں آنے والے علاقوں سے نوجوان اور معصوم عورتوں کو اپنے ساتھ لے آتے ہیں! اور اکثر سے پھرفحاشی کے اڈے پردھندے کروائے جاتے ہیں۔
تھائی لینڈ اس کی ایک بہت بری مثال ہے! جہاں کی دس لاکھ ڈالر کی ٹورسٹ انڈسٹری میں بہت بڑی تعداد فحاشی کے اڈے ہیں۔! یہ علاقہ یورپئین اور مغربی ممالک کے لیے! آزادانہ اور سستی تفریح کا ایک بہت بڑا مرکز ہے۔! نیا سال قریب ہے اور جس طرح مغربی ممالک کے لوگ سال مناتے ہیں،!نجانے کیا کیا پلاننگ کی گئی ہوگی کہ اِس علاقے میں یہ سال کیسے منایا جائے۔!مگرا للہ بہترکرنے والا ہے۔
یہ نہیں کہ اس طرح کی فحاشی کسی اور جگہ نہیں ہوتی ، ہوتی ہے، مگر اللہ کا عذاب کسی ایک جگہ نازل ہوتا ہے! تاکہ دوسری قومیں ان سے سبق سیکھیں۔! بے دین لوگ تو اسے ایک قدرتی حادثہ سمجھ کر پھرجب حالات بحال ہونگے اپنے اپنے دھندوں میں لگ جائیں گے،! مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان اِس واقعہ سے کوئی سبق نہیں سیکھ سکتے؟
سیکھنا ہوگا۔! ہمارے اپنے ملک میں فحاشی زرو پکڑتی جارہی ہے۔! یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ہمارے کئی علاقے عربوں کے لیے فحاشی کے اڈے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔!کیا اللہ تعالیٰ ہمارے قرتوتوں سے ناواقف ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ دیکھ رہا ہے! اور جب مناسب سمجھے گا ہم پربھی اپنا عذاب نازل فرمائے گا۔! (یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ ہم ابھی بھی ایک بہت بڑے عذاب تلے دبے ہوئے ہیں! مگر ہم سمجھتے نہیں)! اور یہ المیہ ہمیں تباہ کررہا ہے کہ ہم مسلمان کسی بات سے سبق نہیں سیکھتے۔
حدیثِ مبارکہ ہے کہ قیامت کے نزدیک زلزلوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔!صرف ۱۹۹۸ سے لیکر اب تک دیکھیں تو ۱۰ کے قریب چھوٹے بڑے زلزلے کے واقعات ہوئے ہیں۔
تو پھرسمجھنے والوں کو کب سمجھ آئے گی؟! کیا ہمیں اِس واقعہ پر افسوس و ملال ہی کرتے رہنا چاہیے یا پھر کوئی سبق بھی سیکھنا چاہیے؟! اللہ تعالیٰ کے طرف سے نازل کردہ یہ عذاب محض عذاب ہی ہے یا تمام بنی آدم اور خصوصاً مسلمانوں کے لیے ایک سبق !!!
[mks_separator style=”solid” height=”2″]
مسعود۔ ۳۰ دسمبر۲۰۰۴
Tribute to shy