Category: Current Affairs

  • نطقِ   خودشناسی

    پیدا تجھ میں نہیں ہے   نطقِ   خودشناسی
    فطرت   تیری   ہے   غلامی ،  سوچ    باسی
    تعمیرِ کائنات میں تیرا عمل بے عمل
    تربیت اخلاق    کی موت، عملاً   سنیاسی
    ملا تیرے ستیزہ    کار  و  فتنہ گر  سارے
    راہبر         ناعاقبت  اندیش   و      غیر   سیاسی
    ملک و قوم پر چھایا ہے سامری جادوگر
    جس   کے سحر     نے    کر دیا      ہر    امر عاصی
    مسعؔود   کون   ہے   قدر  و     عزت میں   بڑا؟
    ملک    کےحکمران یااسٹیج کے میراثی!


    مسعود

    Pegham Network
    Pegham Network

  • سستی روٹی سستا وقار

    موجودہ حکومت کی اوقات: سستی روٹی سستا وقار

    بے سہارا، مجبور، بے کس، بے بس، غریب غربا، مسکینوں اور معاشرے کے تھکے ہاروں کے لیے بنائے گئے لنگر خانوں  کو بند کر کے روٹی 4 روپے سستی کر کے شہرت  اور واہ واہ کمانے والوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو! 

    یہ وہ طبقہ ہے جسے پاکستان کی عوام پر اللہ تعالی کے عذاب کی صورت میں نازل کیا گیا ہے مگر عوام کو اسکا اندازہ نہیں!  یہ لوگ سیاستدان نہیں بلکہ انکو سیاست دان منوانے  والے وہ کتے اور کتیاں ہیں جو دن رات انکے دئیے ہو ئے حرام پر پلتے ہیں اور دن رات انکی تعریفوں کے پل  باندھتے ہیں۔

    عوام نے جن کو انتخابات میں مسترد کر دیا  اور جنہیں شکستِ فاش ہوئی، پاکستانی فوج نے ان سترہ سیٹوں والوں کو حکومت دے پاکستان کے آئین کیساتھ زنا کیا ہے!

    فوج پاکستان کی ریاست کو نہیں مانتی! اسکا اندازہ اس وقت ہوا جب بہاولنگر میں پولیس کے ایک تھانے نے ایک فوجی کے گھر دھاوا بولا جسکے جواب میں فوج نے تھانے پر ہی دھاوا بول دیا اور ایک ایک آفیسر کو ذلت اور رسوائی کی مثال بنا دیا۔ ریاست کے کسی بھی ادارے پر کسی کا بھی حملہ غداری کے مترادف ہوتا ہے مگر پاکستان میں فوج ہی ریاست ہے، فوج ہی آئین ہے، فوج ہی حکومت ہے، فوج ہی پارلیمنٹ ہے، فوج ہی قانون ہے، فوج ہی قانون پر عمل درآمد کرانے والے ہیں لہذا فوج ہی اس بات کو متعین کرے گی ریاست کیا ہے اور قانون و قاعدہ کیا ہے!

    سستی روٹی سستا وقار
    Pak Army Attack Police Station in Bahawalnagar

    پاکستان درحقیقت مکمل ANARCHY کا شکا رہے ! فوج ریاست کو اپنے بوٹ کی نوک پر رکھتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ فوج کے سوا اس ریاست کو کوئی نہیں چلا سکتا! سریعاً غداری! مگر کسی میں اتنی جرأت نہیں ہ فوج کی پالیسیوں پر انگلی اٹھا سکے۔ جس میں جرأت تھی اسے جیل میں بند کر کے اسکی پارٹی جو  ایک واحد سیاسی قوت تھی اسے تہس نہس کر دیا ہے کہ کوئی فوج کے مقابلے میں نہ آئے۔ اور جو بھی فوج کی پالیسیوں پر آواز اٹھائے اسے قتل کر دیاجائے، اسکو اغوا کر لیا جائے، اسکی فیملیز کی عورتوں کی عزت اچھالی جائے، انکے گھر میں خفیہ کیمرے لگا کر انکی عزت رسوا کی جائے: فوج کچھ بھی کر سکتی ہے!

    اور یہ وہی پورن فلمیں ہیں جو ایک مکروہ ، پرلے درجے کی جاھل  اور شو آف عورت کو دیکر اسے سیاستدان بنا دیا گیا ہے۔ وہ عورت جس کو عدالتِ عظمیٰ نے کہا تھا کہ بی بی تم نے یہ کیا کر دیا کہ تم نے عدالت میں جعلی پیپرز جمع کرائے، وہ عورت آج حکمران بنا دی گئی ہے۔  

    فوج نے ان لوگوں کو حکومت میں لگا دیا ہے کہ جن میں جرأت نہیں کہ فوج سے پوچھیں کہ اس نے کس قانون کے تحت سرکاری ادارے پر دھاوا بولا؟ نہیں یہ وہ حکمران ہیں جن کی  چالیس پچاس سالہ سیاست پر عوام نے عام انتخابات میں تھوک دیا ، جو سیاست کے میدان میں شدید شکست خوردہ ہیں، جنکا سیاسی وقار گندی نالے کے کیڑوں سا رہ گیا ہے اورجنہیں دنیا بھر میں کرپشن اور فراڈ کی مثالیں بنا کر تعلیم دی جاتی ہے انہیں فوج نے پاکستان پر حکمران مسلط کر دیا!!! عالم دنیا میں پاکستان کا کیا وقار ہے گیا ہے؟

    وقار کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اس وقت پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے 4 ذلیل ترین پاسپورٹ میں ہوتا ہے۔  جس ملک پر نون گینگ اور زرداری گینگ کو حکمران مسلط کیا جائے اس ملک کا کیا وقار ہو گا؟

    اوپر سے پرچیوں سے سیاستدان بھرتے ہونے والوں نے اس قوم کر دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا ہے۔ جب بلاول جو سیاستدانوں کی ایک مسکین سی کھسری سے زیادہ اوقات نہیں رکھتا عوام کو کہے کہ بھٹو قبر میں زندہ ہے اور حکومتیں توڑنے جوڑنے کا کام کر رہا ہے۔ کسی جاھل تخم کی پیداوار بھٹو اپنے تمام کر کرتوتوں کیساتھ مر کھپ چکا ہے اور وہ بھی اپنے کرتوتوں کا جواب دینے کا منتظر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تم لوگوں کو اپنے اپنے کالے دھندوں کا جواب دینا ہے۔ تم لوگ سیاستدان نہیں بلکے نسل در نسل بدمعاشوں کے گدی نشین ہو! سیاست تمہارے بس کی بات نہیں! تم لوگ فوج کی چوسنی چوسو اور حکومت کے مزے لوٹو! عوام میں گئے تو عوام تمہارارہا سہا نام بھی بے نام کر دے گی۔

    ریاست پاکستان مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ جو کچھ ہے وہ فوج ہے۔ فوج ہی ریاست ہے اور فوج ہے اس ریاست کا ہر ادارہ۔ جبکہ ادھر ہندوستان میں خبریں سرگرم ہیں کہ پاکستان میں آج بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے جو ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں کرارہی ہیں جبکہ پاکستان کی خفیہ ایجنیسیوں کا کام ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگا کر ان کی اپنی عورتوں سے مباشرت کی فلمیں بنا کر انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اپنی ریاست کی عورتوں کو ننگا کرنا ہے !

    صرف پانچ سال کے قلیل عرصے میں 30 لاکھ پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر بیرونِ ممالک میں اپنے اور اپنی اولادوں کے بہتر مستقبل کے لیے دھکے کھانے نکل گیا ہے۔ صرف عام پاکسستانی ہی نہیں بلکہ اس ملک کے 161 ریٹائڑڈ فوجی جرنیل اپنی اپنی ڈیوٹیوں کی مدت پوری ہو جانے کے بعد اس ملک سے نکل گئے ہیں۔ ایک عام پاکستان کا ملک چھوڑنے کی وجہ سمجھ آتی ہے مگر ایک جرنل؟؟؟؟ فوجی جرنیل ریٹائر ہونے کے بعد یا تو سرکاری عہدوں پر لگا دیے جاتے ہیں یا ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ کیا یہ کسی لعنت سے کم ہے؟فوج اور نون گینگ اور زرداری گینگ کے سربراہاں درحقیقت بھائی بھائی ہیں: آج انہیں حکومت سے نکال دو رات سے پہلے شریفیی اور زرداری یہ ملک نہ چھوڑ جائیں تو کہیے گا!!!! پاکستان ایک مکمل طور پر ناکام ریاست ہے اور اسکی ناکامی کی وجہ یہ تین خنزیر ہیں!!!!


    بقلم: مسعود

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • حزب اللہ

    ناموسِ وطن و دیں بیچ رہا ہے مسلم سالار
    نیام میں زنگ آلودہ ہو گئی اتحاد کی تلوار
    پکارتا ہی رہ گیا کشمیروفسلطین کا لہو!
    راہبرانِ امت رہے مغربی ناخداؤں کے یار!
    امت کو درپیش ہے نیا معرکۂ فرعون!
    نسلِ فرعون ہے قوم پر مسلط برقرار!
    معجزۂ قرآن کو سمجھا تو فقط کفار ہی سمجھا
    حافظ و ملا و قاضی دین کے منافق و بدکردار!
    واجب امت پہ ہو چکا ہے نعرۂ حزب اللہ!
    ذلت کی زندگی سے بہتر خودداری کا وار!


    مسعوؔد

    Pegham Network
    Pegham Network

  • پاکستانی سیاست کا کھیل تماشا

    2024 کے الیکشن پاکستانی سیاست کا کھیل تماشا سے بڑھ کر کوئی اوقات نہیں رکھتے۔ اس کھیل تماشے سے پہلے جو سین ہوئے ان پر ایک نظر۔۔۔

    سین1

    ”تم روس نہیں جاؤ گے!”

    ”تم ہم پر حکم نہیں چلا سکتے، ہم ایک آزاد قوم ، آزاد ملک اور آزاد جمہوریت ہیں، ہم اپنے فیصلے اب خود کریں گے! تم اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کر سکتے!”

    ”تم روس نہیں جاؤ گے! اور ہماری (مغربی) نظروں میں اچھا بننے کے لیے DO MORE پر عمل کرو گے!”

    ”میں تمہارا حکم مانوں؟ ”Absolutely Not

    سین2

    امریکہ کو  Absolutely Not        کہنے والا وزیر  اعظم پاکستان عمران خان فروری 2022  میں روس کے 3 روزہ دورے پر ماسکو پہنچا۔ اسی دن ماسکو نے یوکرائین پر حملہ کر دیا جو تاحال فروری 2024 تک جاری ہے!

    اس دورے کے بہت سارے اہم مقاصد تھے جن میں روس اور پاکستان کے درمیان جو کشیدگی پچھلی کئی دہائیوں سے چلی آ رہی تھی اسکو دور کرنا تھا۔ جبکہ اسکے ساتھ ساتھ روس کیساتھ سستی اور معیاری توانائی جس میں تیل اور گیس اہم تھیں انکی رسائی کو یقینی بنانا تھا تاکہ پاکستان نے پچھلی کئی دہائیوں سے عربوں کیساتھ جو مہنگے معاہدے کر رکھےہیں ان سے نجات دلائی جا سکے۔

    مگر ایک ایسا منصوبہ جسے بہت کم لوگ جانتے اور بہت کم صحافیوں نے بیان کیا  ہےوہ یہ ہےکہ روس پاکستان کو اس اہم ترین منصوبے میں شامل کرنا چاہتا ہے جسے BRICS   کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برکس  بظاہر تو کاروباری سطح پر روس، برازیل، انڈیا، چائینا اور ساؤتھ افریقہ کے درمیان ایک تجارتی معاہدہ ہے اور جس میں بہت سارے ممالک شامل ہو رہے ہیں مگر پسِ پردہ برکس نیٹو کے طرز کا ایک ایک عسکری اتحاد پیدا کرنا ہے کہ جو ممالک برکس میں شامل ہوں ، اگر ان میں سے کسی پر حملہ ہوتو تمام برکس ممالک مل کر اسکا دفاع کریں! روسی صدر پوٹن کے نذدیک عمران خان ایک اعلیٰ سطح کا قابل انسان ہے اور وہ پاکستان کے لیے ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس سے پہلے کسی کے بس کی بات نہیں تھے!

    سین 3

    ادھرامریکہ میں  عمران خان کے اس دورے کوشدید ترین ناراضگی سے دیکھا گیا۔ ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جسے ایک اہم مشن دیا گیا!

    ساتھ ہی لندن میں پاکستان کے ایک بہت بڑے مجرم جو پاکستان اور پاکستانی قانون سے مفرور بیٹھا ہوا ہےاسے متحرک کیا گیاوہ اپنی پاکستان جانے کی تیاری شروع کر دے۔

    سین 4

    پاکستان کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی ، مضبوط ترین اور دہشتناک ترین فوج قرار دی جاتی ہے۔ اس فوج کا سربراہ پاکستان کا سب سے پاوورفل انسان ہوتا ہے۔ پاکستان کی ایک ایک رگ اس ایک انسان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اکتوبر 2022 کو پاکستان کی اس فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو امریکہ مدعو کیا جاتا ہے۔ ایک سرکاری دورہ جس کا بظاہر مقصد مغربی ممالک کے ساتھ پاکستان کی خارجی پالیسی  کو بہتر بنانا ہے مگر پسِ پردہ اس دورے کا مقصد اس مشن سے آگاہی ہے جس کا ذکر سین 3 میں کیا گیا ہے۔ مشن یہ تھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو بطور وزیر اعظم رد کر تی ہے اور اسے جلد از جلد حکومت سے برخاست کر کے اسے ایک ایسی خوفناک مثال بناناچاہتی ہے جیسے 1976 کو امریکی سیکرٹری وزیرِ دفاع ہنری کسنجر نے بھٹو کو بنانے کی دھمکی میں دی تھی۔ بھٹو کو فوج کے ہاتھوں قتل کروا کے وہ خوفناک مثال قائم کی گئی تھی!

    سین 5

    دو مارچ 2022 کو امریکی وزیرسیکٹریری  برائے وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک ڈونلڈ لو نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم عمران خان کی نسبت لائحہ عمل مرتب کر رہے ہیں۔ سات مارچ کو پاکستانی وزیر برائے امریکہ کو امریکہ ہیڈ کواٹر بلایا جاتا ہے اور اسے اس خاص مشن کی تکمیل کی تیاری کا حکم دیا جاتا ہے۔  اس ملاقات کے بعد ایک سائفر مرتب دیا جاتا ہے جو پاکستان کی ملٹری کو موصول ہوتا۔

    سین6

    ملٹری کے نامعلوم افراد نے پی ٹی آئی کے پچاس کے قریب ایم پیز کو کڑوڑوں  روپے دیکر انکا ضمیر خریدکر زرداری گروہ کیساتھ جا ملایا اورانہیں عمران خان کے خلاف کر دیا۔ یوں پارلیمنٹ میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلوا  کرفوج نے اسکی جائز حکومت کا غدار ی کیساتھ تختہ الٹ دیا۔  نومبر 2022 کو قمرجاوید باجوہ  اپنی ڈیوٹی کی مہلت ختم کر کے ریٹائرڈ ہوا ۔ جاتے ہوئے اپنی زبان سے یہ کہہ کر گیا کہ ہمیں انہیں (عمران حکومت کو) ہٹانا پڑا ورنہ وہ پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن چکے تھے۔

    سین7

    پاکستان بھر میں اس غداری کو بھانپتے ہوئے عوامی شور شرابا ہونے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ مگر اس سے نبٹنے کے لیے عمران خان کے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی قائم مقام حکومت جسکی اصل بھاگ دوڑ مریم صفدر کے ہاتھ میں تھی ، مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اس منصوبے کی مکمل منظوری فوج کی جانب سے دی جا چکی تھی۔

    سین 8

    سن ستر میں جب مجیب الرحمن نے پاکستان کے پہلے آزاد الیکشن میں زبردست کامیابی حاصل کی اور فوجی جرنیلوں کو محسوس ہوا کہ وہ انکے لیے خطرہ بن گیا ہے، تو فوج نے مجیب الرحمن کی عوامی طاقت کو توڑنے کے لیے اس کے ایم پیز پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے، ان کو انکی فیملیوں پر بد ترین ذہنی و جسمانی ٹارچر کیا۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد میں ایم پیز عوامی لیگ پارٹی سے الگ ہو کر دوسری پارٹیوں میں چلے گئے۔

    سین9

    سات مارچ کے سائفر  کے بعد جب عمران خان کی حکومت گرائی گئی تو ساتھ سے پی ٹی آئی کے ایم پیز کیساتھ ہو بہو وہی سلوک ہونے لگا جو عوامی لیگ کے ایم پیز کے ساتھ ہو چکا تھا۔ تاریخ ایک بار پھر سے خود کو دہرا رہی تھی۔ عورتوں کی ہتک کی گئی، انہیں ننگا کرنے کی دھمکیاں دی گئی۔ مردوں کو انکی آنکھوں کے سامنے انکی عورتوں کو بے آبرو  کرنے کی دھمکیاں دی گئی۔ کئی کو کڑوڑوں روپے دیکر انکا ضمیر خریدا گیا۔یوں پی ٹی آئی کو منتشر کیا جانے لگا۔

    سین 10

    9 مئی !

     پاکستان کی بھیانک اور کالی سیاسی تاریخ میں  ایک اور المناک باب رقم ہوا۔ ایک بہت بڑے پیمانے پر منظم اور گائیڈڈ دہشتگردی کرائی گئی جس میں خاص طور پر سرکاری اور فوجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ دہشگردی اس قدر منظم اور منصوبہ بندی سے کی گئی کہ اسکا سارا ملبہ پی ٹی آی پر آن پڑا۔ جبکہ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ فوجی گاڑیوں میں دہشتگرد بھرکر لائے گئے جنہوں نے دہشتگردی کی اور فوجی جوانوں کے پہروں میں سرکاری ڈنڈوں سے دہشتگردی کی گئی۔ یہ دہشتگردی اس امریکہ مشن کا ایک اہم حصہ ثابت ہوئی جسکا ذکر سین نمبر تین میں کیا گیا ہے۔

     اس کا اثر یہ ہوا کہ سرکاری اداروں کے پاس وہ ثبوت آ گیا جس پر وہ پی ٹی آئی اور اسکی قیادت پر ہاتھ ڈال سکیں۔ بظاہر یہ قدم پی ٹی آئی کے سر تھوپ دیا گیا جبکہ ہماری اطلاعات اور ہماری سورس کے مطابق درحقیقت یہ پلان مریم صفدر، رانا ثنااللہ ، راتوں رات مسلط کیے جانے والے  وزیراعلیٰ پنجاب ، ڈی آئی جی پنجاب  اور کچھ فوجی افسران کا بنایا ہوا تھا، جسے فوج کی مکمل حمایت اور اشیر باد حاصل تھی اور ہم یہ کہنے کے حق بجانب ہیں کہ اسکا حکم امریکہ سے آیا تھا۔

    سین 11

    عمران خان اور اسکے اہم ترین ساتھی جنہوں نے ابھی تک اسکا ساتھ نہیں چھوڑا تھا ان سب کو کالے قانون کے تحت گرفتار کر کے طرح طرح کے کیسز انکے سر تھوپے جانے لگے۔ باقیوں سے جبراً اور بندوق کی نوک پرحلفیہ بیان لیے جانے لگے کہ 9 مئی کے واقعات کا حکم عمران خان نے خود دیا ہے۔اگر کوئی بیان دینے سے انکار کرتا نامعلوم افراد سے انکی فیملیوں خاص کر عورتوں کی ہتک اور بے آبرو کرنے کی دھمکیاں دی جاتی۔  اس قدر اندھیر نگری شاید سن ستر میں بھی نہیں ہوئی ہو گی !  اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان نوازشریف کی طرح ڈیل کر کے ملک سے فرار ہو جائے گا۔ مگر عمران خان اپنے ارادوں کی پختگی کیساتھ جما رہا اور جب اسکے خلاف کوئی بات ثابت نہ کر پائے تو ایک جھوٹے کیس میں نااہل اور 10 سال کی جیل سنا دی جس سے شاید ہی پاکستانی حکومتوں سے وابستہ کوئی شخص مبرا ہو گا۔ توشہ خانے کی ایک گھڑی!!!! لیکن چونکہ حکم امریکہ کا تھا اسے پورا کرنا فرض تھا!

    سین 12

    جو بھی سیاسی کارکن جو ابھی تک پی ٹی آئی سے وابستہ تھا وہ دہشتگردی کی ایکٹ میں آنے لگا۔ جبکہ جیسے ہی وہ کارکن پی ٹی آئی چھوڑنے کے حلف نامے پر دستخط کرتا اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں چلا جاتا وہ نیک پارسا اور پوتر ہو جاتا۔ اسے اپنا سیاسی کیرئیر جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی۔ یوں انگنت پی ٹی آئی کے اہم ترین رکن اس دباؤ تلے آ کر اپنی عزتوں کو بچاتے ہوئے دوسری جماعتوں میں چلے گئے یا سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور پی ٹی آئی منتشر ہو نے لگی۔

    سین 13

    شہبازشریف کی قیادت میں ایک کٹھ پتلی حکومت بنا  کر فوج نے نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لی۔ شہبازشریف بحثیت وزیر اعظم گندی نالے کے کیڑے کی طرح ہے جسکی کوئی اوقات نہیں ۔ جسے کسی قسم کا کوئی بھی فیصلے لینے کی اجازت نہیں ۔ فوج جو چاہتی وہی ہوتا ۔ کسی قسم کا کوئی بھی آئین ملک میں لاگو نہیں ، کیونکہ فوج کبھی کسی آئین کو مانتی ہی نہیں ۔ قانون انسانی کائنات کے غلیظ ترین عمل کا نام بن چکا ہے۔ قانون صرف اس پر نافذ ہے جسکی کوئی بھی ہمدردی پی ٹی آئی کیساتھ ہوتی۔ شاید ہی کسی ملک کی تاریخ میں سے لاقانونیت کی ایسی کوئی مثال دی جا سکتی ہو، جیسی لاقانونیت پاکستان میں ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق اگر کوئی جمہوری حکومت برخاست کی جاتی ہے تو نو ے دن کے اندر اندر الیکش کرانا لازمی ہے۔ مگر جب فوج ہی ملک چلا رہی تھی اور جب فوج کسی آئین کو مانتی ہی نہیں تو الیکشن کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔

    درحقیت الیکشن سے پہلے پہلے کچھ اہم کام باقی تھے، جس میں  پاکستان کے سب سے بڑے مجرم نوازشریف کو پاکستان واپس لانااور اسے تمام تر جرائم سے پاک اور پوتر قرار دیناہے۔ اس پر جو بھی الزامات تھے وہ سب سے سب راتوں رات دھو نا اور اسے پاکستان کا نیک ترین انسان کا خطاب دینے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی آخری سانسیں تک ختم کرنا، اسکے ایک ایک ٹکٹ ہولڈرز کو پارٹی کے بینر پر الیکشن نہ لڑانا، عمران خان کو مکمل طور پر راستے سے ہٹانا ابھی باقی تھا۔

    سین 14

    پاکستان الیکشن کمیشن کی تاریخ کوئی نیکی یا پارسائی اور وطن پرستی کی تاریخ نہیں۔ یہ ادارہ ایک بہت گندی اور غلیظ طوائف کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ پی ٹی آئی سے اسکے اہم ترین نشان بلا بھی چھین لیا کہ کوئی بھی ٹکٹ ہولڈر بلے کے نشان پر الیکشن نہٰیں لڑ سکتا۔ ہر ممبر ایک آزاد ممبر کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے اور اسکا اپنا نشان ہو!

    یعنی پاکستان کی تاریخ کی سب سے خنزیر اور بدکار چال چلی گئی۔ عوام کو عمران خان سے متنفر کرنے کے لیے الیکشن سے کوئی چودہ دن پہلے 10 سال کی سزا سنا دی۔ یہ سزا دو جرموں میں سنائی گئی۔ اول تو یہ کہ عمران خان نے پاکستان کے سرکاری راز فاش کیا، دوسرا یہ کہ اس نے ایک مطلقعہ عورت سے دورانِ عدت نکاح کیا!

    پہلا جرم وہ سائفر کا سرِ عام ذکر تھا جس پر عمران خان نے عوامی سطح پر اس وقت دکھا کر سوال کیا کہ ایک غیر ملکی طاقت (امریکہ) ہمارے اندرونی معاملات میں دخل کیوں دے رہا ہے اور جسکی وجہ سے ایک جمہوری حکومت کا تختہ آرمی کے جرنل باجوہ نے الٹا؟ یہاں پر یہ بات بہت ہی اہم ہے کہ فوج اس بات سے انکار کرتی چلی آئی ہے کہ کسی قسم کا کوئی سائفر آیا ہی نہیں اور اسکا کوئی وجود نہیں!!!! پھر یہ بھی کہا گیا کہ سائفر آیا ہے مگر اس میں حکومت الٹنے کی بات نہیں۔ یعنی ہر حال میں اگر کوئی قابلِ پھانسی بنتا ہے تو وہ اس وقت کا چیف آف آرمی اسٹاف جرنل باجوہ بنتا ہے مگر سزا عمران خان کو دی گئی!

    دوسرے جرم کی نسبت حقیقت یہ ہے کہ یہ دینی سطح کا ایک انتہائی مضحکہ خیز اور جھوٹ پر مبنی کیس بنایا گیا ہے۔ ایسا کیس جسکا کسی قسم کا کوئی وجود نہیں!

    سین 15

    8 فروری 2024 الیکشن ڈے!

    کوئی بیس ماہ کی غیر آئینی  و غیر قانونی حکومت نے فوج کی نگرانی میں ہر ممکنہ ادرے کی مدد سے ہر وہ غلیظ اور بدکار کھیل کھیلتے ہوئے بالآخر الیکشن کا اعلان کر دیا! یاد رکھیے اب تک پی ٹی آئی کے خلاف:

    • پارٹی لیڈر عمران خان کو جھوٹی سزا دلوائی
    • عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرایا، جس میں وہ بچ گیا
    • پارٹی کے اہم ترین رکنوں کو جیل میں بے جا ہوس میں رکھا
    • دوسرے کئی اہم رکنوں کا ضمیر خرید کر انہیں پارٹی سے الگ کر دیا
    • بلے کا انتخابی نشان چھین لیا
    • کسی قسم کی الیکشن کمپئین پر پابندی عائد کر دی
    • تمام تر ٹکٹ ہولڈرز پارٹی کے لوگو پر الیکشن نہیں لڑ سکتے
    • تمام ٹکٹ ہولڈرز کو الگ الگ انتخابی نشان دے کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے پر مجبو کر دیا
    • آخر لمحات تک کئی ٹکٹ ہولڈرز کو ہراساں کیا جاتا رہا، کبھی انکے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دئیے رہے، کبھی انہیں ذہنی و جسمانی طور پر حراساں کیا جاتا رہا
    • بعض حلقوں میں امیدواروں کو الیکشن سے پہلے پیسہ دیکر خرید لیا جاتا
    • پی ٹی آئی رکن ریحان زیب خان کو الیکشن والے دن قتل کر دیا گیا

    ان  کے علاوہ:

    • روز بروز انٹرنیٹ سروس بند کر دی جاتی اور خاص کر الیکشن والے دن
    • کئی ایک حلقوں میں فائرنگ ریکارڈ کی گئی

    ان باتوں سے الیکشن کروانے والے کیا چاہتے تھے؟ پاکستان کی اکثر آبادی انپڑھ اور گنوار ہے۔ وہ نسل در نسل کچھ جانے پہچانے لوگوں کے جانے پہچانے نشانوں کو ووٹ دینے کی عادی ہیں۔ پی ٹی آئی کا لوگو بلا ایک ایسی علامت تھی جس پر عوام “عمران خان سمجھ کر” مہر لگایا کرتے تھے۔ جب یہ بلا ہی نہیں ہو گا، پئ ٹی آئی کا نام ہی نہیں ہو گا تو عوام پریشان ہو کر ان  نشانوں پر ٹھپہ لگا دے گی جنہیں وہ جانتی ہے جیسا کہ شیر، تیر اور کتاب وغیرہ۔

    8 فروری 2024 کو پاکستانی عوام نے وہ کھیل کھیلا جو نہ فوج کی توقع کے مطابق تھا، نہ شریفیوں، نہ زرداریوں اور نہ ہی انکے مغربی آقاؤں کی! پاکستانی عوام نے بیلٹ پیپر پر سے ان افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہریں لگائیں جنہیں بالکل نئے اور اجنبی انتخابی نشانات دئیے گئے تھے اور انکا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔

    یوں رات کے پہلے پہلے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی زبردست کامیابی سے جیت رہی تھی۔یہاں تک کہ نوازشریف تک اپنے حلقے سے بری طرح ہار رہا تھا۔ پھر وہی ہوا جو پاکستان میں ہمیشہ ہوتا ہے: رات گئے روشنیاں گل کر دی گئی، کمپیوٹرز بند کر دئیے گے اور نتائج آنا بند ہو گئے۔ یہاں تک کہ دوسری صبح کاسورج طپش پھیلانے لگا۔ یکایک نتائج بھی آنا شروع ہو گئے اور غیر یقینی طور پر ، معجزانہ طور پر وہ لوگ جو رات کو بری طرح ہار رہے تھے وہ جیت گئے!!!!

    پی ٹی آئی کے لوگ جو اکثریت سے جیت رہے تھے وہ محدود ہو گئے۔ پہلے غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی 148 سیٹوں پر جیت رہی تھی۔ جبکہ نون لیگ 43 اور پی پی پی 47 سیٹوں پر جیت رہی تھی۔ مگر الیکشن کمیشن کو یہ نتائج پسند نہ آئے تو انہوں نے لائٹیں بند کر دیں اور جب دوسرے تیسرے دن جا کر لائٹیں آن کیں تو پی ٹی آئی فقط 93 سیٹوں تک محدود رہ گئی۔ جبکہ نون لیگ کو 73 اور پی پی پی کو 54 سیٹیں عنایت کر دیں۔  فارم 45 کی بجائے فارم 47 لوگوں کے ہاتھوں میں تھما کر انہیں جبراً فاتح قرار دیا جانے لگا!

    دنیا بھر کے مبصرین، میڈیا، ماہرین نے پاکستان کے ان الیکشن کو تاریخ کا سب سے خنزیر ترین الیکشن قرار دیتے ہوئے تاریخ کا سب سے بڑا دھاندلی شدہ الیکشن قرار دیا اور پاکستان کی بدترین ذلت و رسوائی کا باعث بنا۔

    ان الیکشن میں سب سے بڑا نقصان اور سب سے بڑی شکست پاکستان فوج کو ہوئی جنہوں نے اپنی حتمی الامکان کوشش کی  کہ نوازشریف یہ الیکشن واضح اکثریت سے جیتے۔ لہذا تمامتر اوپر بیان کی گئی بندوشوں، پی ٹی آئی کے خلاف تحریب کاریوں، دہشتگردیوں کے باوجود عوام نے نہ صرف فوج کے منہ پر تھوکا بلکہ نوازشریف کی غلیظ اور بدکار اوقات سرعام ظاہر کر دی۔ ایسے الیکشن  کراوانے پر فوج اور  الیکشن کمیشن پر 75 سالوں اور کڑوڑوں انسانی کی جانب سے دن رات لعنت اور ذلت و رسوائی کا تحفہ ملنا چاہیے۔

    جس مقصد کے لیے ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارا، ایک بے گناہ انسان کو جیل میں ڈالا، اس کا نام تک ختم کر دیا، اسکے ایک ایک بندہ اور انکی فیملیوں کی ذلت کی، عورتوں کو بے آبرو کیا، نظام درہم برہم کیا، 9 مئی کا بدترین جھوٹا کھیل رچایا، کئی بے گناہ افراد کا قتل کرایا، لاکھوں کو ذہنی ٹارچر دیا، بے تحاشا پیسہ حرام کی راہ بہایا۔۔۔ وہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ شدید شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ بدترین دھاندلی کے باوجود ایک ایسا ماحول برپا کر دیا جس میں کسی کے پاس حکومت بنانا مشکل کر دیا۔ اسکا نتیجہ اب یہ نکلے کہ پی ٹی آئی کے وہ 93 افراد جنہوں نے آزاد امیدواربن کر الیکشن جیتا ہے ان پر مزید کھربوں پیسہ لگا انکا ضمیر خریدنے کی کوشش کی جائے گی! ان کو اور انکی عورتوں کو ہراساں کیا جائے گا اور انکی آبروریزی کی دھمکیاں دیکر ان کے ضمیر خرید کر انہیں نون گینگ میں شامل کیا جائے گا اور نوازشریف کے سر فتح کا تاج سجا دیا جائے گا: کیا تم اس کو الیکشن کہتے ہو؟ کیا تم اسکو جیت کہتے ہو؟ کیا تم اسکو حکومت کہتے ہو؟ میری جانب  سے ہر اس فرد کے منہ پر تھو لعنت جو اس کو کامیابی کہتا ہے!!!

    یہ الیکشن انسانی کائنات کے خنزیر ترین الیکشن تھے جن فوج کو بدترین شکست ہوئی ہے!   اب تم جسے چاہو وزارت کا تاج پہنا دو، جسے چاہے حکومت دیدو، جسے چاہے ہیرو اور جسے چاہو ولئین بنا دو تمہاری مرضی! کیونکہ تم نے اسکا فیصلہ بہت پہلے کر دیا تھا جب تم نے کہا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملک کون چلا سکتا ہے۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ تم محافظِ پاکستان ہوتے ہوئے اس قدر غلیظ اور بدکار ، قابلِ مذمت اور کرمنل کھیل  میں پاکستانی قوم کا پیسہ، سرمایہ اور وقت برباد کرتے رہے!!!!


    بقلم: مسعود

    Pegham Network

  • پاکستانی جمہوریت

    پاکستانی جمہوریت

    پاکستانی جمہوریت!

    پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی جمہوری حکومت کو معذول کرنے کے بعد 90 دن کے اندر اندر دوبارہ الیکشن کروانا لازمی ہے! عمران خان کی جائز حکومت پر فوجی شبخون مارنے کے بعد اب کوئی ڈیڑھ سال ہونے کو ہے الیکشن کا نام و نشان تک نہیں! اور اگر الیکشن ہو بھی جائیں تو سب کا سب جھوٹ اور مکروفریب پر مبنی ہو گا کیونکہ پاکستان میں سیاسی اعتبار سے کیا ہوگا اسکا تعین پہلے ہی سے کیا جا چکا ہے!

    پاکستان میں حکومت کون بنائے گا؟
    اس کا فیصلہ واشنگٹن سے ہو گا۔ حکومت اسی کی ہو گی جو امریکہ اور مغربی طاقتوں کے لیے کھلونا بن کر کھیلنے کو تیار ہو گا۔ انکا غلام ہو گا اور انکے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرے گا۔ اسکی اپنی کوئی سوچ نہیں ہو گی۔ اس کے اندر غیرت نام کی کوئی شے نہیں ہو گی اور پاکستان اسکے لیے فقط دولت کمانے کا ایک آلہ ہو گا۔ اسکے تمامتر فیصلے امریکہ سے پاس ہونگے۔

    حکومت کون کون سے کام کریگی؟
    اس کا فیصلہ ورلڈ بنک ، آئی ایم ایف کیساتھ ساتھ عرب کریں گے۔ ایک مکمل ٹاسک لسٹ بنائی جائے گی جس کے تحت کٹھ پتلی حکومت کو ایک وقتِ مقررہ کے اندر اندر وہ ٹاسک لسٹ پوری کرنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس ٹاسک لسٹ میں پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جو بھی کام ہو گا وہ برائے نام ہو گا۔ زیادہ تر کام وہی ہونگے جس کا فائدہ مغربی طاقتوں کیساتھ ساتھ عربوں کو ہو گا۔ کیونکہ یہی لوگ پاکستان کو ڈالرز دیتے ہیں اور پاکستان کو جب بھی دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یہی لوگ قرض در قرض دیکر اس ملک کو بچاتے ہیں! یہی لوگ پاکستان کو قرض دیتے ہیں اور پھر قرض اتارنے کے لیے قرض دیتے ہیں۔ اسطرح پاکستانی عوام اگلی کئی سو سال تک قرضوں کے بوجھ تلے دبی رہی گی۔پاکستان میں ترقی مشروط ہو گی! 
    اپنی مرضی سے سر نہیں اٹھاسکے گی کیونکہ غلام قومیں سر نہیں اٹھاتیں! اور جب جب اس قوم میں عمران خان جیسا لیڈر پیدا ہو گا، اسکو راستے سے ہٹانے کے لیے شیطانی کارندے موجود ہیں!

    ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
    پاکستان میں امریکہ  کی ایک جدید ترین ایمبیسی ہے جس سے پاکستان کی سیاست میں ہونے والی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کی تین ملٹری بیس ہیں جہاں سے پاکستان کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ چاہیں تو براہِ راست پاکستان کے سیاسی ماحول کو کنٹرول کر لیں مگر اس سے وہ عالمی قوانین کی خلاف وزری میں ملوث ہوتے ہیں لہذا اس کام کے لیے مغرب نے، نیٹو نے اور عربوں نے پاکستان آرمی کو پال رکھا ہے۔پاکستان آرمی جب چاہے پاکستان کی سیاست کو متزلزل کر سکتی ہے۔ جب چاہے جس حکومت کو چاہے الٹ کر رکھ سکتے ہیں۔ یہ کام پاکستان آرمی کم وبیش 75 سالوں سے کر رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست مکمل طور پر فوج کے پاؤں کی جوتی بنی ہوئی ہے۔ فوج 75 سالوں سے مسلسل جھوٹ بول رہے رہی ہے کہ سیاست میں انکا کوئی عمل دخل نہیں۔ ہر فوجی سپہ سالار یہی کہتے ہوئے یہی کام کرتے چلا جاتا ہے۔

    الیکشن میں کس پارٹی کو کتنی سیٹیں دی جانی ہیں، اسکا فیصلہ فوج کریگی۔ کہیں اگر کسی کو برتری حاصل ہونے کا خدشہ ہوا راتوں رات اس کے نتائج کو بدل دیا جائے گا۔ بالکل ایسا 2013 کے الیکشن میں ہوا جب پی ٹی آئی واضح برتری سے جیت رہی تھی راتوں رات اس کے نتائج کو فوج نے سبوتاژ کیا اور نون گینگ کو جتوا دیا۔ پھر دوبارہ 2018 کے الیکشن میں ہوا جب پی ٹی آئی زبردست واضح برتری سے جیت رہی تھی کہ سب آئی ٹی سسٹم ڈاؤن کر دئیے گے اور کئی ایک پولنگ کے رزلٹ بدل دیے گئے۔ فوج کبھی پاکستان میں ایک مکمل خودمختار  حکومت یا حکمران برداشت نہیں کر سکتی ہے۔

    فوج پاکستان میں مغربی احکامات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ اور مغربی احکامات یہ ہیں کہ پاکستان میں کوئی ایسی حکومت نہیں آنی چاہیے جو خوددار ہو، جو اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہو۔ جو مغرب اور پاکستان فوج کے لیے خطرہ بن سکے۔ ایسی حکمران کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔  اور یہی ہوا!

    9 مئی اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اور مضحکہ خیز بات ہے! اسکو عوام نے بالکل قبول نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسکے بعد ہر اس انسان جسکا تعلق عمران خان سے ہو اس کو عبرت کا نشانہ بنایا گیا اور بنایا جا رہا ہے۔ جو جہاں کے کتے بلوں پلوؤں سے کتابیں لکھوائی جا رہی ہیں ، من پسند کے ٹی وی انٹرویوز دلوائے جا رہے ہیں۔ اور ہر وہ خنزیر حرکت کی جارہی ہے جس سے عوام کے دل و دماغ پر عمران خان کے خلاف نفرت پھیلائی جا سکے مگر انکی ہر حرکت انکے اپنے ہی خلاف جا رہی ہے۔ کوئی بھی حربہ کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں ہو تا نظر آ رہا ہے۔

    جھوٹ کبھی پروان نہیں چڑھتا! 

    1970 میں بنگال میں جو کچھ کیا وہ بھی جھوٹ تھا، جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ بھی جھوٹ ہے! پاکستان میں جمہوریت ایک مسلسل جھوٹ ہے! دراصل پاکستان فوج کے قبضے میں ہے اور فوج ہی مغربی احکامات پر ملک چلا رہی ہے!


    تحریر: مسعود


    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • عالمِ دین

    چند دن پہلے کی خبر ہے کہ ملک کےایک  بہت بڑے اور عمران خان کے حق میں بلاتردد بولنے اور انکا ساتھ دینے والے عالمِ دین مولانا طارق جمیل کے جوان سال بیٹے کو قتل کر دیا گیا!

    اسکے کچھ دن بعد کی خبر ہے کہ ایک دوسرے روایتی ملاؤں اور عالموں سے قدرے مختلف مرزا محمد علی  المشہور مرزا انجئنیر کا بھی سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کیا گیا جسکے بعد  انکا کیا حال ہوا، یہ بھی ہم نے دیکھ لیا!

    آج روایتی علماؤں اور مشائخ کی ایک بہت بڑی تعداد نے آرمی چیف حافظ منیر صاحب سے ملاقات کی اور انکے ہاتھ پر بیعت کی جس کا لبِ لباب ایک عام آدمی کے سمجھنے کے لیے یہ ہے کہ ‘آرمی جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ عین اسلام ہے اور ملا آرمی کے ساتھ کھڑے ہیں، آرمی کی خلاف ورزی کرنا اسلام کی خلاف ورزی کرنا ہے‘۔

    عالمِ دین

    میں پاکستانی علماؤں اور دین کے ٹھیکے داروں کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہوں کیونکہ میرے نذدیک پاکستانی عوام کو  دین سے غفلت، عقائد کی غلامی، بدعات میں جکڑنے کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی کی جہالت میں ڈبونے میں   ان نام نہاد ملاؤں اور علماؤں کا سخت گھنوونا کردار رہا ہے۔ انہوں نے پاکستانی عوام کو دین سے دور اور جہالت کی نگری میں دھکیل رکھا ہے۔ اصل اسلام اس ملک کی رگوں سے ناپید کرنے میں ان ملاؤں کا کردارِ قابل نفرت حد تک پھیلا ہو ا ہے۔ جو جہاں کا بدعتی ملا ملک میں دین کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے۔

    آپس میں ایک دوسرے پر فتوے کسنا، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، اپنے علاوہ تمام دوسرے فرقات کو کافرکہنا  اورکسی دوسرے ملا کی بات پسند نہ آنے پر اسے حرامی تک کہہ ڈالنے  والے یہ ملاعالمِ دین  اور مذہب کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ دین کو پسِ پشت ڈال کر غیریقینی روایات، کہاوتوں اور کہانیوں کے پیچھے لگا کر عوام کا مذہبی رحجان مسخ کرنے والے یہ  خودساختہ عالمِ دین اور مذہبی ٹھیکیدار حکمرانوں کے دروں پر کتوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ ملک میں اخلاقیات کا جنازہ اٹھ چکا ہے! ملک میں معاشرت کا جنازہ اٹھ چکا ہے! ملک میں حرامکاری کی انتہاہو چکی ہے! ملک میں کرپشن عروج پر ہے! ملک پر انسانی کائنات کے سب سے خنزیر ترین لوگ حکومت کر رہے ہیں اور کرنے جارہے ہیں مگر ان عالمِ دین اور  ملا ؤں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی  بلکہ غفلت کی نیند سو رہے ہیں!

    صرف غفلت کی نیند ہی نہیں بلکہ یہ جانتے ہوئے بھی، یہ سنتے ہوئے بھی، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ایک آرمی چیف (باجوہ) اپنی زبان سے بول کر کہہ رہا ہے کہ ہمیں ایک (منتخب) حکومت ختم کرنا پڑی اور ساتھ سے وہی باجوہ کہہ رہا ہے کہ سیاست میں دخل اندازی آئین میں غداری کے مترادف ہے ،دوسرا آرمی چیف حافظ صاحب ملک کو مکمل طور پر اپنےپنجے میں رکھے ہوئے ہےاور ملک مکمل طور پرآرمی کے قبضے میں ہے،یہ عالمِ دین ،  ملا اور مشائخ کا گروہ  آرمی چیف کے ہاتھ پر بیعت کر رہا ہےجبکہ اسی بیٹھک میں چیف آف آرمی اسٹاف کہہ رہے ہیں کہ ریاست کے علاوہ کوئی طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا! تو کیا ان منافق ترین ملاؤں اور عالمِ دین میں ایک بھی ایسا تھا جو پوچھنے کی جسارت کرتا کہ سرکاراب یہ بھی فرما دیں کہ ریاست کسے کہتے ہیں؟ آرمی کو؟ کیونکہ پاکستان میں آرمی کے سوا کوئی بھی طاقت کا استعمال نہیں کرتا جہاں تک آرمی اجازت دے۔ کیا آرمی پاکستانی ریاست ہے یا پاکستانی ریاست آرمی کے نرغے میں ہے؟

    سچائی ہمیشہ تلخ ہوتی ہے۔ سچائی  کے لیے ہمیشہ دو افراد کی ضرورت ہوتی ہے: ایک وہ جو سچ بولے ایک وہ جو سچ سنے! سچ یہ ہے کہ پاکستانی علماؤں، عالمِ دین اور مشائخ کا یہ گروہ بدترین منافقت کا شکار ہے! ان کی منافقت اس قدر شدید ہے کہ یہ ملک کی عوام کیساتھ بدترین جرم اور جو لوگ انکو مانتے ہیں انکے اعتماد کا قتل ہے!  یہ ملا  حکمرانوں کے در کے کتے ہیں اور انکے گلوں میں غلامی کا پٹا پڑا ہوا ہے۔ انکا آرمی کے ساتھ کھڑا ہونا اس بات کا اعلان ہے کہ جمہوریت کا قتل انکے نذدیک جائز ہے اور آرمی کی ہر بات بلاایں و آں  درست ہے!!!

    اور آرمی کو بھی خوب علم ہے کہ پاکستانی عوام کو غلام بنانے کے لیے ایسے ملاؤں اور خود ساختہ عالمِ دین لوگوں کو پٹے میں ڈالے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ضیاالحق نے بھی ایسا ہی کیا تھا جب اسے عوامی سپورٹ درکار تھی اس  نے عالمِ دین اور علماؤں کا جھمگٹا اکٹھا کیا اور انہیں ایک شدید منافق پروجیکٹ پر لگا دیا اور عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے عالمِ دین لوگ ، علما اور مذہبی لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں!

    انگریز نے بہت بڑی سوچ کے تحت اپنے پادریوں کو سیاست سے الگ کر کے کلیساؤں تک محدود کیا تھا کہ جب تک ملا دین کے نام پر عوام کا برین واش کرتے رہے گے  ، معاشرہ ترقی نہیں پا سکتا۔ اور جب ملا اپنے مفاد کے لیے فوج کے بوٹ چاٹنے لگیں تو وہ معاشرہ پستی کی اندھیر نگریوں میں غوطے کھاتا رہتا ہے۔ ہماری فوج کو کرپٹ ترین سیاستدانوں جیسے نون گینگ اور زرداری گینگ پسند ہیں وہی پر انہیں ضمیر فروش، دین فروش اور منافق ملا پسند ہیں کیونکہ یہ لوگ عوام کے دماغوں کو مسخ کرتے ہیں!

    بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ اس وقت انسانی کائنات کا خنزیر ترین معاشرہ بن چکا ہے اور اس ملک پر اسقدر لعنت برس رہی ہے کہ جو سب سے بڑے غدار ہیں، جنہیں آئین کیساتھ غداری کے جرم میں پھانسی ہونی چاہیے وہ ملک کا نظام چلا رہے ہیں اور اپنی حاکمیت کو جائز قرار دینے کیلئے اپنی  سرپرستی میں پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے مجرموں کو کلین چٹیں دلوا رہے ہیں!!


    تحریر: مسعود

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • بوٹ والے

    بوٹ والے کہتے ہیں کہ ‘نہ یہ پرانا پاکستان ہے’ اور ‘نہ یہ نیا پاکستان ہے’ یہ ‘ہمارا پاکستان ہے’

    بوٹ والے یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں قابلِ احترام ہیں، ہم کسی خاص سیاسی جماعتوں کے نظریے کے طرفدار نہیں’

    ہم بوٹ والوں کی باتوں کو ماننے پر مجبور ہیں، کیونکہ اگر بوٹ والوں کی باتوں سے اختلاف کیا جائے تو کیا پتہ کب کہاں کون ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیدیا جائے اور  نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا ہو جائے، لا پتہ ہو جائے یا قتل ہو جائے!

    ورنہ کیا ہم نہیں جانتے کہ 1951 میں قائدِ ملت لیاقت علیخان کے قتل سے لیکر 2022 تک عمران خان کی حکومت کو گرانے تک اور 2023 میں بیرونی طاقتوں کے حکم پر عمران خان گرفتار کرنے اور پھر ملک بھر میں پی ٹئ آئی کے نام پر دہشتگردیاں کرانے میں بوٹ والوں کا پاکستانی سیاست میں کیا بھیانک کردار رہا ہے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ لیاقت علیخان کی حکومت گرانے کے لیے بوٹ والوں نے راولپنڈی تحریک چلائی(سرغنہ میجر جنرل اکبرخان) اور جس میں فیض احمد فیض جیسے ذہنی نطق شامل کیے تاکہ عوام پر اس غدار تحریک کا اثر ہو؟ جب وہ سازش ناکام ہوئی تو اسکے نتیجے میں لیاقت علیخان کو قتل کرا دیا!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ لیاقت علیخان کے قتل کے تفتیشی پولیس آفیسر صاحبزادہ اعتزاز الدین کے طیارے کو فضا میں تباہ کرنے والے کون تھے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ کیسے بوٹ والوں نے ان غداروں کو فل بنچز بنوا کر آرام سے ایسی آزادی دلوا دی جسکے بعد کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا! جبکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں میجر اکبر جیسا غدار پھانسی کے سزا کا مستحق تھا!!!!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ دستورساز اسمبلی میں اپنی من مانی کرنے کے پیچھے کون سے بوٹ والے سرگرم تھے؟ اور ون یونٹ کو اپنی طاقت کا سرچشمہ بنانے کا جرم کون سے بوٹ والوں نے کیا تھا؟ کیا وہ سیاسی فیصلے تھے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ کیسے اسکندرمرزا کے جگری دوست جنرل ایوب نے طاقت پر قبضہ جمانے کے لیے  ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کو حکومت کیساتھ ملکر سنبھالنے کی بجائے ‘وقت کےانتظار ‘ میں تھے کہ کب حالات ایسے خراب ہوں کہ بوٹ والے  قبضہ جمائیں!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ کیسے بوٹ والوں نے 1959 میں صحافت پر بدترین تشدد کیا اور جو بھی قلمکار بوٹ والوں کے خلاف لکھتا اسے تہس نہس کر دیا جاتا! کراچی میں طلبہ پر دہشتگردیاں کرائی گئیں ان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوائیں!

    بوٹ والے

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں کے ایوبی ہتھکنڈوں کے تحت ایبڈو کا نفاذ کر کے سیاستدانوں کو سیاست سے برطرف کیا یا انکو اپنا قیدی بنا لیا؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں امریکی فوجی بیس بنوانے والے کون تھے اور جب   1960 میں پشاورسے امریکی بیس سے ایک جاسوسی طیارہ اڑا جسے سویت یونین میں مار گرایا گیاجس سے پاکستان اور سویت یونین کے مابین حالات تلخ ہو گئے۔ یوں بوٹ والوں نے پاکستانی سرزمین پر امریکی بیس کی اجازت دی جسکا انکار وہ آج تک کر رہے ہیں!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے اپنے آپ کو پاکستان کا ناخدا بنانے کے لیے ایک ایسا آئین داغ ڈالا تھا جسکا محور، جسکامرکز، جسکی روح صرف اور صرف بوٹ والے تھے اور جس کو حبیب جالب اپنی مشہور نظم ْایسے دستور کو، صبح بے نور کو  – میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا’ سے بیان کیا؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے سیاست میں اپنے قدم جمانے کے لیے کنونشن مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت بنا کر خود کو سیاسی ہونے کا ڈھونگ رچایا اور انکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کئی سال بعد مشرف نے بھی ایسی عمل کو دہرا کر پاکستان میں بوٹ والوں کے سیاسی عزائم کو مضبوط کیا؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ 1963 میں امریکہ اور برطانیہ کے حکم پر بوٹ والوں نے قدرت اللہ شہاب کو سیکریٹری اطلاعات کے عہدے سے ہٹا دیا اور امریکہ میں مقیم الطاف گوہر کو اس عہدے پر برجمان کرا دیا۔ پاکستان میں وزیر کس کو لگانا ہے اس کا فیصلہ امریکہ سے ہونے کی ابتدا کروانے والے کون تھے؟جسکو اخبارات نے پاکستان کی توہین کہا، اور 2022 میں امریکہ ہی کہنے پر عمران خان کو ہٹا دیا گیا! یہ سب کرنے والے کون ہیں؟ بوٹ والے!

    کیا ہم نہیں جانتے کے اس درجہ بالا واقعہ کے بعد پاکستان میں پریس اور اطلاعات کو سرکاری ‘تحویل میں لے لیا گیا اور خبر وہ بنتی تھی جو بوٹ والوں کی پسند کی ہوتی’ اور پاکستانی حکومت کو پاکستان کے اندورونی حالات کی خبر ہونے سے پہلے وہ خبر امریکہ پہنچ چکی ہوا کرتی تھی؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے 1964 کے صدراتی انتخابات جیتنے کے لیے مہاجرین کو ذلت آمیز الفاظ سے دھمکایا کہ مہاجرین ہندوستان سے بھاگ کر آئے ہیں اگر مس جناح (فاطمہ جناح) کو ووٹ دیا تو ملک کمزور ہو گا اور یہاں سے مہاجرین بھاگ کر کہاں جائیں گے کیونکہ آگے تو سمندر ہے!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے بوٹ والوں نے قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی ذلت و رسوائی کے پمفلٹ چھپوائے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اپنے بیٹے گوہرایوب کو کھلی چھٹی دیدی کہ وہ کراچی کی سڑکوں پر دفعہ 144 نافذ ہونے باوجود جشن منا کر طیش کا سماں پیدا کریں۔ جس کے نتیجے میں انگنت افراد کا کراچی میں قتل ہوا!!! وہ قتل کرانے والے کون تھے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ آپریشن جبرالٹر کیا تھا؟ اور اس نے کشمیر کے متعلق پاکستان کے مؤقف کو کس قدر نقصان پہنچایا؟ اور اسکے بعد 6 ستمبر کو بھارت نے بدلہ چکانے کے لیے پاکستان پر حملہ کر دیا! یہ تاریخ کا ایک ایسا جھوٹ ہے جو بوٹ والوں نے پاکستانی نصاب میں شامل کیا ہے کہ ہندوستان نے بغیر کسی طیش کے ہماری سلامتی پر ضرب لگائی، جبکہ حقیقت اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ 6 ستمبر کا حملہ پاکستان کی انتظامیہ کی ایک اور خطرناک غلطی کو بیان کرتا ہے کہ ترکی میں مقیم پاکستانی سفیر نے سائفر کے ذریعے سیکریٹری خارجہ عزیزاحمد کو اطلاع دی کہ بھارت 6 ستمبر کو حملہ کرنے جا رہا ہے، عزیز احمد نے اس وقت کے وزیرِ دفاع مسٹر ذوالفقارعلی بھٹو کو اطلاع دی جنہوں نے بات اگنور کر دی!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ اگرتلہ سازش کیس میں بوٹ والوں نے اپنی حکومت کے کھو جانے کے خوف سے ایک ابھرتی ہوئی غداری کی سازش کو اگنور کیا اور اس سازش کے تمام کرداروں کو باعزت بری کر دیا؟ اور جسکا المناک انجام ہوا؟ ایکبار پھر کسی بھی خوددار معاشرے میں ایسی غداری کی ایک ہی سزا ہوتی ہے : پھانسی! مگر پھانسی کیونکر دی جاتی جبکہ جنرل اکبر کو باعزت بری کیا جا چکا تھا!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ راولپنڈی میں پولیس نے طلبہ پر تشدد کیا جس کا بھرپور فائدہ بھٹو نے اٹھایا اور ملک بھر میں دہشتگردیوں کی ایک المناک داستان رقم ہوئی؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے 1969 میں جب حالات انکے قابو سے باہر ہو گئے تو ملک کو بدترین مارشل لا میں دکیل دیا؟ اور اسکے تحت جو فسادات و قتل و غارت ہوئی وہ تاریخ بھول گئی ہے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک بوٹ والے نے دوسرے بوٹ والے کو ملک اس طرح دیدیا جیسے یہ ملک انکے باپ کی جاگیر تھا۔ وہ بوٹ والا جو شرابی، کبابی، عورتوں کا دلدادہ اور بدکردار ترین خنزیر تھا؟ بجائے اسکے کہ ملک میں الیکشن کرائے جاتے اور حکومت جیتنے والے کو دی جاتی؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ ایوانِ صدر میں بوٹ والے اور انکے بیٹے پاکستانی عورتوں کے جسموں سے زنا کرنا اپنا مشغلہ بنائے ہوئے تھے!

    ہم نہیں جانتے کہ کیسے بھولاطوفان نے ایک کڑوڑ سے زائد بنگالیوں کو بدترین طور پر متاثر کیا اور بوٹ والے بین بجاتے رہ گئے؟ جس سے مشرقی اور مغربی پاکستانیوں کے مابین نفرت کی لکیر کشید ہو گئی؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ  مجیب الرحمٰن کی مقبولیت سے خوف زدہ بوٹ والوں نے کیسے اسے غدار بنا کر پیش کیا اور پھر اسکے ساتھ بدترین کھیل کھیلنے کی کوشش کی! یہ الگ بات ہے کہ بنگالیوں کو وقت پر ہوش آ گئی اور انہوں نے اپنے لیڈر کے حق میں فیصلہ دیا کہ بوٹ والوں کو بنگال سے اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا!

    کیا ہم نہیں جانتے کہ سقوطِ ڈھاکہ  میں ملوث بوٹ والوں کا کیا کردار تھا اور ان  خنزیر ترین کرداروں  کاانجام کیا ہوا؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ آپریشن فئیر پلے کے تحت بوٹ والوں نے کیسے جمہوریت کی ماں بہن ایک کرتے ہوئے ایک عوامی حکومت کا تخت تاراج کر دیا؟ اور ایکبار پھر پاکستان کو بوٹ والوں نے اپنی حراست میں لے لیا؟ اور اگلے 12 سال تک بوٹ والوں نے پاکستان کی موجودہ بدحالی، تباہی اور زبوں حالی کی بنیاد رکھی؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے ملک میں اپنی طاقت کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے دین کے نام پر عوام الناس کو ٹارچر کیا؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے امریکہ کے کہنے پر مجاہدین کو پیدا کیا اور بعد میں انہی مجاہدین نے طالبان بن کر اس ملک کی سالمیت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ کیسے بوٹ والوں نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر تشدد کیے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ نصرت بھٹو کیس میں بوٹ والوں نے کس طرح عدلیہ کو لافعال کر دیا اور ان سے اپنے من مانی کے فیصلے لیے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے ایک اور سازش حیدرآباد سازش کیس کو بھی اپنی مفاہمت کی نظر کر دیا؟ اور ایکبار پھر غداروں کو پھانسی پر لٹکانے کے بجائے اپنی حکومت بچانے کے لیے معاف کر دیا؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے عوامی لیڈر بھٹو کا عدالتی قتل کروایا؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے صحافیوں کی آزادئ رائے پر ان پر کوڑے برسائے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ کیسے بوٹ والوں نے اداکارہ شبنم کے ساتھ زیادتی کے مرتکب مجرمان کو جبراً معافی دلوائی؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ بوٹ والوں نے عین اس وقت جب بھٹو پر مقدمہ زیرِ سماعت تھا ہزاروں صفحات کے قرطاس ہائے ابیض شائع کیے تا کہ ججز پر اثرانداز ہوں اور عوام بھی بھٹو سے متنفر ہو؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ خود بوٹ والوں کو گرانے میں کیسے کیسے بوٹ والے سازشیں کرتے رہے؟ میجر تجمل؟ آپریشن گلیکسی؟ اوردوسرے بہت سارے۔

    کیا ہم نہیں جانتے کیسے بوٹ والوں نے اسلام کو اپنی حکومت اور طاقت کے بچانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے نظامِ مصطفیٰ سے لیکر زکٰوۃ و عشر آرڈیننسس کے تحت اسلام کو مذاق بناتے رہے ؟ اور جب یہ تمام کے تمام چونچلے ناکام ہو گئے تو بوٹ والوں نے اپنی طاقت کو جبراً تقویت دینے کے لیے صدارتی ریفرینڈم اس بنیاد پر کرایا کہ جو اسکے خلاف ووٹ دیگا وہ اسلام کے خلاف وووٹ دیگا؟؟؟؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ اس ریفرینڈم پر ملک بھر سے عوام کا بائیکاٹ ہوا مگر اسکے باوجود بوٹ والے اکثریت سے جیت گئے؟ وہ ووٹ کدھر سے آئے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ سانحہ اوجڑی کیمپ میں خود بوٹ والوں کا کس قدر بھیانک کردار ہے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ خود ضیاالحق کے طیارے کا حادثہ بوٹ والوں کے کردار کو مشکوک کرتا ہے؟

    کیا ہم نہیں جاتے کہ بے نظیر کو حکومت کو گرانے کے لیے بوٹ والوں نے آپریشن مڈنائٹ جیکل سے لیکر دوسرے کئی اقدام کیے اور مسلسل سیاست میں مداخلت کرتے رہے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ 90 کی دہائی میں بوٹ والوں نے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنی انگلیوں پر نچایا؟ اور ایک بار پھر جمہوریت کی بحالی کے محض دس سال بعد پھر سے بوٹ والے ملک پر مسلط ہو گئے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ کیسے بوٹ والوں نے پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں ملوث کر دیا جسکے اثرات پاکستانی عوام آج تک بھگت رہی ہے؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں 90 فیصد دہشتگردیوں کے پچھے کون ملوث ہے؟ ورنہ یہ بات کوئی بھی ذی شعور انسان برداشت نہیں کر سکتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آرمی پبلک اسکول میں دہشتگرد آئے، گارڈ کو عین اس وقت ہٹوا دیا گیا، دہشتگردوں نے گھنٹہ بھر فائرنگ کر کے 151 معصوم بچوں کو بیدردی سے قتل کیا اور بوٹ والے سوتے رہۓ؟ اور جب دہشتگردی کی واردات مکمل ہو چکی تو چند ایک گھنٹوں میں کئی ایک ‘سہولت کاروں’ کو پکڑ بھی لیا، ان پر مقدمات بھی چلا دئے اور انہیں پھانسیوں پر بھی لٹکا دیا؟ اگر تمہاری انٹیلی جنسیز اتنی ہی تیز تھی تو واردات سے پہلے سو رہی تھی؟ نہیں اس دل سوز واقعہ کے پیچھے بھیانک کردار کے لوگ ملوث ہیں جن کا تعلق کسی بھی طور طالبان سے نہیں تھا!!!

    بوٹ والے کہتے ہیں ہمارا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں مگر عمران خان کے خلاف کل کاروائی بوٹ والوں کے ایما پر ہو رہی ہے۔ اس وقت تمہارا ایک ایک بیان تمہارے گھنواؤنے کرتوت کو بیان کر رہی ہے۔ تم کہتے ہو کہ سیاست سے تمہارا کوئی تعلق نہیں مگر تم مکمل طور پر پی ڈی ایم کے ترجمان لگ رہے ہو۔

    تم کہتے ہو کہ یہ ہمارا پاکستان ہے! تمہارے پاکستان میں ایک عام پاکستان کسی چھاؤنی کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا! تمہارے پاکستان میں کوئی عام پاکستانی تمہارے اسکولوں میں اپنے بچے نہیں پڑھا سکتا! تمہارے پاکستان میں عام پاکستانی کے بچے تمہارے بچوں کے ساتھ کھیل کود نہیں سکتے!

    تمہارا ایک ایک ایکشن اس وقت بیرونی طاقتوں کے کہنے پر ہے، وہ طاقتیں جنہوں نے عمران خان کو روس جانے سے منع کیا تھا مگر وہ ایک باغیور لیڈر اپنے ملک میں اپنے فیصلے خود کرنا چاہتا تھا، مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ 75 سالوں سے بوٹ والوں نے جو غلامی کی لکیر کھینچی ہوئی ہے وہ اس وقت پتھر پر لکیر بن چکی ہے اور اسکو مٹانا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس ملک کا ایک ایک سیاسی فیصلہ واشنگٹن میں ہوتا ہے اور بوٹ والوں کا کام ہے کہ وہ فیصلے پاکستان پر مسلط کیے جائیں!!!!

    بوٹ والے کسی ایسے سیاسی لیڈر کو برداشت نہیں کر سکتے جو عوام میں مقبول ہو،  انکو اپنے کرتوتوں کے کھل جانے کا خدشہ ہوتا ہے، ان کرپٹ بوٹ والوں کو اپنی طاقت کے کھو جانے کا خوف ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ہر ممکنہ طور پر ایسے لیڈر کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں، جیسے بھٹو کر ہٹایا گیا تھا۔ بھٹو کا عدالتی قتل پاکستان کی تاریخ کا غلیظ ترین حصہ ہے جس پر بوٹ والوں کے گہرے عکس موجود ہیں اور اب عمران  خان بھی اسی طرح راستے سے ہٹایا جا رہا ہے۔بوٹ والے ایسے لیڈرز پسند کرتے ہیں جو دن میں انکے خلاف بھونکتے ہوں اور راتوں کو انکے آم چوستے ہوں جیسے زرداری اور شریفی جبھی بوٹ والے انہیں پروٹیکشن دیتے ہیں! اس کی صداقت یہ ہے کہ تم ہی نے اس ملک میں رجیم چینج کے تحت جرائم پیشہ لوگوں کو حکومت میں لائے، تم ہی نے بار بار انکے حق میں لابیاں کی۔ عدالت کے حکم کے تحت 14 مئی سے پہلے الیکشن ہونے چاہیے، تم ہی ان خنزیر حکمرانوں کی اس ناجائز حکومت کو بچانے کے الیکشن ملتوی کرانے کے ملک میں دہشتگردیاں کروا رہے ہو! تم ہے اس ملک کے امن کے دشمن ہو!

    اور جب بوٹ والوں کی ڈیوٹی کی معیاد ختم ہو جاتے ہیں تو وہ یہ ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں وہ مجرم ہے! وہ جانتے ہیں کہ انکے دامن غلیظ ہیں! وہ جانتے ہیں کہ اگر کہیں طاقت انکے ہاتھوں سے چھن گئی اور احتساب ہوا تو 95 فیصد سیاسی لٹیروں کی طرح 95 فیصد جرنل پھانسی پر لٹک سکتے ہیں! جنرل اکبر بچ گیا! جنرل ایوب بچ گیا! جنرل یحیی بچ گیا! اگرتلہ سازش کیس میں ملوث فوجی بچ گئے! ضیا بچ گیا! خود ضیا کے خلاف ملوث سازشوں میں کئی فوجی بچ گئے! اسلم بیگ بچ گیا! کیانی بچ گیا! مشرف بچ گیا! باجوہ بچ گیا!

    کیونکہ قانون کی بالادستی سے ملک بنتے ہیں اور جس ملک میں قانون کی قیمت ایک طوائف کی فرج سے زیادہ نہ ہو وہاں سیاسی خنزیر بچ جاتے ہیں، وہاں فوجی بچ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں! 

    اگر کوئی پھانسی لگتا ہے تو وہ بھٹو ہوتا ہے یا عمران !!!!

    بوٹ والو! تم اس ملک کی رگوں کے ناسور ہو! تم نے 75 سالوں سے اس ملک کے سیاسی ماحول کا جو قتل کیا ہے اس میں تمہارے ہاتھ ایسے سنے ہوئے ہیں جنہیں تم چاہتے ہوئے بھی نہیں دھو سکتے!!!!!


    بقلم مسعود

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze

  • One Year of Pakistan Regime Change

    One Year of Pakistan Regime Change

    9 اپریل 2023!

    آج پاکستان میں رجیم چینج کی غداری کا ایک سال مکمل ہوا!

    9 اپریل 2022!

    اکیسویں صدی کے تئیسویں سال میں 22 کڑوڑ افراد کے ملک میں آئین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پاکستان آرمی  نے  جنرل باجوہ کی قیادت میں غداری کرتے ہوئے غیرملکی طاقتوں کے حکم پر ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا! اور حکومت کی بھاگ دوڑ ان خنزیروں کے ہاتھ دیدی جنکو اس ملک کی عوام انتخابات میں بری طرح روند چکی تھی!  صرف یہی نہیں کہ ملک کی بھاگ دوڑ ناکام لوگوں کے ہاتھ دیدی ، ایک ماہ کے اندر ہی اپنے فوجی کارندوں سے بیانات دغوائے کہ ‘جب سے رجیم چینج ہوئی ہے، ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں اور معیشت بہتر ہوئی ہے’۔

    آئیے ہم ایک عام سا جائزہ لیتے ہیں کہ رجیم چینج سے لیکر 9 اپریل 2023 تک  پاکستان کدھر کھڑاہے!

    عالمی اداروں کے تفصیلات کے مطابق عمران خان کی ڈھائی سالہ حکومت کے دوران پاکستان کے فارن ریزرو پچھلے 25-30 سال کی بلند ترین سطح تقریباً 23 ہزار ملین ڈالر پر کھڑے تھے۔ ترقی کی شرع کا تناسب 6 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ انڈسٹری اور خاص کر ٹیکسٹائل انڈسٹریز ترقی کی راہوں پر گامزن تھیں۔لارج اسکیل انڈسٹری   نے 10 فیصد ترقی کی، کسانوں کو سہولیات ملی جسکی وجہ سے زراعت میں زبردست اضافہ ہوا، لاکھو ں افراد کو جابیں ملیں اور یہ اس وقت تک جب کرونا عروج پر تھا۔  عمران حکومت نے ٹیکس کےنظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی تو سرمایہ دار مافیاز نے قیمتوں میں اضافہ کر دیا جس سے ملک میں مہنگائی ہوئی۔ مافیاز کے پے رول پر چلنے والے میڈیا  اور مریم صفدر کے 50 روپے فی ٹویٹ نے اس مہنگائی کو کوہ ہمالہ کی چوٹیوں سے نسبت دیکر مہنگائی کے خلاف زبرمہم چلائی!  یہاں تک کہ فضل الرحمان کے پالتووں نے ملک بھر میں فسادات شروع کر دیے۔ ساتھ ہی ملاؤں کی دوسری نسل کے مولویوں اور خودساختہ عاشقانِ رسول نے دوسرے فسادات شروع کردئیے اور ملک بھر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی۔

    آج 9 اپریل 2023 کو ان واقعات کے ایک سال بعد پاکستان تاریخ کے بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ یا یوں کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس وقت دنیا میں کوئی بھی پسماندہ سے پسماندہ ملک بھی ایسے حالات سے نہیں گزر رہا جن حالات سے پاکستان کو گزارا جا رہا ہے:

    نوجوان مایوس ہوکر ملک سے بھاگنا چاہتے ہیں، صرف پچھلے 8 ماہ میں 6 لاکھ پاکستان ملک چھوڑگئے ہیں! اس پر ظلم یہ کہ جو قابل دماغ کا بچہ ہے اسے امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ خاص اسپانسر اسکیموں پر ‘اغوا’ کر رہے ہیں! جو جہاں کا کنڈم مال ہے وہ شریفیوں اور زرداریوں کو ووٹ دینے کے لیے رہ گیا ہے!اس ایک سال میں  Inflation  فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد تک پہینچ چکا ہے۔ ایک تھیلا آٹے کی قیمت 1200 سے بڑھ کر 2800 تک پہنچ چکی ہے۔ 

    One Year of Pakistan Regime Change

    ، چند ماہ میں کئی کارمینوفیکچررز پاکستان سے اپنے کارخانے بند کر دئیے ہیں۔ یہاں تک کہ بلوچستان ٹائر مینوفیکچرارز نے بھی اپنے کارخانے بند کر دئیے ہیں۔ انڈسٹریز کا برا حال ہے۔ پی آئی اے ، اسٹیل مل ، ریلوےمسلسل نقصان میں جا رہی ہے! پاکستان جیسے ملک میں ریلوے نقصان میں جائے یہ ممکن ہی نہیں ہونا چاہیے!

    بیرونِ ملک پاکستان پیسہ بھیجنے سے انکاری ہیں،  ریمیٹینسس میں زبردست کمی آئی ہے۔ عقل مند پاکستانی ان لٹیروں کی موجودگی میں پاکستان پیسہ بھیجتے ہوئے خوفزدہ ہیں۔ روپے کی یہ حالت ہے کہ عنقریب 300 کا حدف تجاوز کرنے کو ہے۔ سونا 2 لاکھ 17 ہزار فی تولہ تک پہنچ چکا ہے۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے! فارن ریزرووز اس وقت تاریخ کی کمتر سطح پر کھڑے ہیں: ایک سال پہلے 23ہزار ملین ڈالر سے 2023 میں فقط 4ہزارملین ڈالر! ہم اس وقت بنگلہ دیش سے بھی کوئی 7 گنا کمتر سطح پر کھڑے ہیں!!!!

    عمران خان کے دور میں لنگرخانے اور پناہ گاہیں بنائی گئیں کہ غریب لوگ عزت سے روٹی کھا سکیں اور پناہ لیں سکیں، ہر فرد کو دس لاکھ تک کے مفت علاج کی سہولت میسر تھی، مگر اس خنزیر حکومت نے وہ تمام سہولیات بند کر کے عوام کو رمضان کے مہینے میں ایک تھیلا آٹا دینے کے لیے کئی کئی گھنٹے سڑکوں، بازاروں، گلیوں میں کھڑے کر کے رسوا کیا اور اس میں کئی افراد ہلاک ہو گئے!  اور اوپر سے شوبازشریف لمبے لمبے بوٹ پہن کر انکے ساتھ تصویریں بنا کر ان پر احسان کر رہا ہے کہ میں نے تمہیں آٹے کا تھیلا دیا!

    ریاست پاکستان اس وقت مکمل طور پر ناکام اور مفلوج ریاست بن چکی ہے جو اپنی عوام کو کسی بھی طرح کا سکون دینے میں ناکام ہو چکی ہے، حکومتی سیاست فسطائیت کی بدترین مثال بن چکی ہے جس کا مقصد سیاسی بدلے لینے کے سوا کچھ نہیں!ناجائز ، کرپٹ  اور غیرآئینی طور پر مسلط کی جانے والی حکومت کو کوئی تسلیم نہیں کرتا یہاں تک کہ خود نون گینگ اسے تسلیم نہیں کرتی! اسٹیبلشمنٹ کو باہرسے حکم ہے کہ چپ چاپ تماشا دیکھو!!!

    جب عالمی بنک چاہتا ہےمقروض کر کے اپنی من مانی کرتا ہے اور اس من مانی میں عالمی بنک کا سب سے بڑا مقصد مغربی طاقتوں کے حکم کو پورا کرنا ہے اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر مشروط قرض کے علاوہ اعتماد اس قدر مفلوج ہو چکاہے کہ وہ ‘دوست ممالک کی ضمانتیں’ مانگنے لگے ہیں!!!!!!

    چین ہمارے حال پر رحم کھا کر یا سعودیہ پرانے تعلقات کی بنا پر کچھ کڑوڑ ڈالرز ہمارے کشکول میں ڈال دیتا ہے تو اس خنزیر حکومت کے دن گزر جاتے ہیں! عالمی دنیا میں اسوقت پاکستان اس کتے کی طرح ہے جو در در بھٹک کر چپہ نوالہ کو ترستا دیکھتا ہے اور کہیں نہ کہیں سے کوئی مالکِ مکان اس کتے کو روٹی کا چپہ ڈال دیتا ہے!

    ہمارے خارجہ تعلقات بدترین سطح پر کھڑے ہیں، پاکستان کی دنیا میں کسی قسم کی کوئی بھی اوقات نہیں،پاسپورٹ دنیا کے گھٹیا ترین پاسپورٹس میں شمار ہوتا ہے، عدالتی معیار دنیا کے بدترین معیار تصور کیا جاتا ہے، تعلیمی میعار زبردست بدحالی کا شکار ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے  کہ پاکستان میں رجیم چینج کا بھیانک کھیل کس نے کس کے کہنے پر کھیلا ہے اور جن کو حکومت دے گئی ہے وہ انسانی کائنات کے خنزیر ترین مجرم ، کرپٹ اور نیچ ترین لوگ ہیں۔ کرپشن عروج پر ہے! معیشت کا یہ حال ہے کہ اسوقت ایتھوپیا کا ایک بئیر پاکستان کے 5 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ایتھوپیا!!!

    ایک سال میں پاکستان جس نے مغربی دنیا کو یہ بات باور کرائی کہ اگر کوئی ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کرے تو ہمیں کتنی اور کیسی تکلیف ہوتی ہے، وہ پاکستان اس وقت فسطائیت کی بدترین مثال ہے۔ 3 افراد اس وقت پاکستان کی سیاست کے ساتھ کھیل رہے ہیں: مریم صفدر، ملافضلو اور رانا ثنااللہ۔ یہ تین انسانی کائنات کے منافق اور بدترین سور اس وقت صرف اور صرف بدلہ لینے کی سیاست کر رہے ہیں! جو بھی صحافی انکے حق میں نہ لکھے وہ بدنام کر دیا جاتا ہے، اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے، کوئی بھی عمران خان کے ساتھ وابستہ بندہ ہو اسے جہاں تک ممکن ہو گرفتار کیا جا رہاہے، جس طرح ہٹلر نے ایک خاص پولیس کا محکمہ بنایا تھا اپنے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے ایسے ہیں اس خنزیر حکومت نے بھی پولیس میں ایسے ایسے بدمعاش بھرتی کیے ہوئے جن کا پولیس کیساتھ کوئی تعلق نہیں، یہاں تک کہ آرمی کے سابقہ لوگ بھی نظر آتے ہیں جو پولیس کا بھیس بدل کر پی ٹی آئی کے خلاف ایکشن میں مصرف ہیں۔پی ٹی آئی کے کارکنوں کو  ہراساں کیا جا رہے اور یہاں تک کہ ظل شاہ کو قتل تک کیا گیا ہے ۔ – سیاسی قتل! ریاست قاتل! کرانے والے یہ تین سورہیں!

    اس ایک سال میں لاتعداد انسانیت سوز واقعات ہوئے ہیں جس میں ریاست نے بدترین مجرم کا کردار ادا کیا ہے۔ ارشدشریف اور ظل شاہ کے قتل سے لیکر عمران خان کی باپردہ بیوی پر اخلاقیات سوز حملوں تک، ریاستِ پاکستان نے گندگی اور خناس کردار ادار کرنے کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ اور یہ سب کرانے والے تین ناسور ہیں: مریم صفدر، ملا فضلو اور راناثنا!

    حکومت ناکام ہے۔ حکومت آئین کے ساتھ کھلم کھلا غداری کر رہی ہے۔ اس قدر ناکام حکومت اگر یورپ میں ہوتی تو وہ کب کا استعفیٰ دے چکی ہوتی۔ مگر 11 جماعتوں کے اس غلیظ گند نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بج جائے، ملک دیوالیہ ہو جائے، ریاست کی ساکھ چاہے جتنی مجروح ہو، حکومت نہیں چھوڑنی! یہ حکم انہیں لندن میں بیٹحے ہوئے پاکستان کے مفرور، مجرم اور wanted     criminal نوازشریف کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔ نوازشریف نے کبھی پاکستان کے آئین کا پاس نہیں کیا اور سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے باوجود اسکو کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا!

    ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے، مگر مجال ہے کسی بھی حرامخور مافیاز کے پے رول پر پلنے والے صحافی نے مہنگائی کا رونا رویا ہو جیسے وہ ایک سال پہلے روتے تھے۔ بلکہ یہ حرام کھانے والے صحافی اور مریم صفدر کا 50 روپے فی ٹویٹ کا میڈیا سیل اس وقت بھرپور کوشش میں ہے کہ مریم صفدر کو سیاستدان بنا کر لایا جائے، اور مریم صفدر کی بھرپور کوشش ہے کہ ججز کے ضمیر خریدنے سے لیکر انکی فلمیں جاری کرنے تک جہاں سے بھی ممکن ہو نوازشریف کے لیے کلین چٹ حاصل کی جائے۔ اس ضمن میں ہر اس جج کی ذات پر کیچر اچھالا جائے گا جس سے نون گینگ کو فائدہ حاصل نہ ہو گا۔ حالات کو شدید گھمبیر کیا جائے گا، مذہب کارڈ کھیلے جائیں گے اور دہشگردیاں کرائیں جائیں گی۔

    گیارہ جماعتوں کا یہ گند اپنے سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے کسی بھی انتہا تک جائیں گے! الیکش جب ہوئے اس میں زبردست دھاندلیاں کرائی جائیں گی!

    64 سالوں سے پاکستان کو ایک اچھے خاصے متمول ملک سے 2023 کی غلیظ ترین صورتحال میں ناکام ترین ریاست کے روپ میں  لا کر کھڑے کرنے والے 3 خنزیر اس ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیل رہے ہیں! 

    تینوں جانتے ہیں کہ وہ مجرم ہیں! تینوں جانتے ہیں کہ ان کی طاقت لڑکھڑا رہی ہے!  اسی لیے وہ ایک دوسرے کو پروٹیکٹ کر رہے ہیں۔ ان تینوں کا صرف ایک مقصد ہے: عمران خان کو راستے سے ہٹانا!!!! اور اس مقصد کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ مذہب اور مذہبی جماعتوں کو بھی حرکت میں لایا جائے گا ۔ا ور اسکا آغار بھی ہو چکاہے جس میں  آرمی نے ایک کالعدم مذہبی تنظیم کو حرکت دی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب  بھی تین خنزیر مشکلات کا شکار ہوئے ہیں پاکستان میں دہشتگردیاں ہوئی ہیں اور بڑے پیمانے پر ہوئی ہیں، جس میں آرمی پبلیک اسکول اسکی بدترین مثال تھی! انسانیت کا قتل اور بھیانک انداز میں!!! اسطرح انسانیت کا خون بہانہ ان تین خنزیروں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں!  اور جو حالات جا رہے ہیں پاکستانی قوم ایسے ہی کسی واقعہ کے لیے تیار ہو جائے!

    پاکستان میں سفید پوش ہونا کسی جرم سے کم نہیں! اور جنکی تجوریوں میں کڑوڑں پڑے ہیں انہیں کسی بات کی فکر ہی نہیں۔ انہیں رتی برابر فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان پر مافیاز حکومت کریں! انکو صرف اپنی تجوریوں سے غرض ہے۔ مگر یاد رکھیے جس دن اس ملک کی معیشت کا دیوالیہ ہو گیا، اس دن ان کڑوڑں کی اوقات ٹائلٹ پیپرز سے زیادہ کی نہیں ہو گی! اور اللہ کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے! وہ یہ نہیں دیکھتا کہ تم نام نہاد بھڑکیں مارنے والے عاشقانِ رسول ہو کہ نہیں! وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ تم حق کے ساتھ کھڑے ہو کہ باطل کے ساتھ!!!!!

    میں حق کے ساتھ کھڑا ہوں اور حق یہ ہے کہ پاکستان کو 3 خنزیروں نے تباہ کیا ہے اور عمران خان پاکستان کا واحد حل ہے!!!!


    بقلم مسعود

    SC orders 500 Buildings in Karachi to raze