Blog

  • جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو تیرا میخانہ یاد آتا ہے

    جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو تیرا میخانہ یاد آتا ہے

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#ddfff2″]

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    جب بھی جی چاھتا ہے پینے کو، تیرا میخانہ یاد آتا ہے
    بھول بیٹھا ہوں مدتوں سے جسے کیوں وہ افسانہ یاد آتا ہے

    یاد رہتا نہیں مجھے پینا، توڑ دیتا ہوں ساغر و مینا
    جب تیری مدھ بھری نگاہوں کا مجھ کو پیمانہ یاد آتا

    یاد آتی ہے جب تیری مجھ کو ساری دنیا کو بھول جاتا ہوں
    دل نہیں لگتا صحنِ گلشن میں تیرا ویرانہ یاد آتا ہے

    وہ کوئی بدنصیب ہی ہو گا روشنی سے نہیں ہے پیار جسے
    ہو گیا جو شہید الفت میں وہی پروانہ یاد آتا ہے

    لوگ کھاتے ہیں جب وفا کی قسم چوٹ سی دل پہ ایک لگتی ہے
    مر مٹا جو وفا کی راہوں میں آج وہ دیوانہ یاد آتا ہے

    غیر سمجھا جسے فریدی نے دوستی کے وھی تو قابل تھا
    اپنے سب ہو گئے پرائے جب وھی بیگانہ یاد آتا ہے

    [spacer size=”30″]
    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    [/nk_awb]

    شاعر: (اگرآپ کو شاعر کا نام معلوم ہے کو کامنٹس میں لکھیے)

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

  • دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے

    دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#ddfff2″]

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    دلِ وحشی کی یہ حسرت بھی نکالی جائے
    چاندنی جتنی بھی ممکن ہو چرالی جائے
    یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں
    اِس کے سینے سے اگر لہر اٹھالی جائے
    ہم سمجھتے ہیں محبت کے تقاضے لیکن
    کیسے اُس در پہ کوئی بن کے سوالی جائے
    یہ جو سودا ہے یہ مہنگا تو نہیں ہے ہرگز
    سر کے بدلے میں جو دستار بچالی جائے
    میں نے دیکھا ہے کہ وہ خود ہی بکھر جاتا ہے
    سعدؔ جب پھول سے خوشبو نہ سنبھالی جائے
    [spacer size=”30″]
    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    [/nk_awb]

    شاعر: سعدؔاللہ شاہ

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

  • میں خیال ہوں کسی اور کا

    میں خیال ہوں کسی اور کا

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#ddfff2″]

    میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
    سرِ آئینہ میرا عکس ہے ، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
    میں کسی کے دستِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
    میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
    عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
    میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
    میری روشنی تیرے خدوخال سے مختلف تو نہیں مگر
    تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
    تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتا نہ تھا
    تیری داستاں کوئی اور تھی، میرا واقعہ کوئی اور ہے
    وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
    میرا جرم تو کوئی اور تھا پر میری سزا کوئی اور ہے
    کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں ، دیکھنا انہیں غور سے
    جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
    جو میری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
    تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    شاعر: سلیم کوثر

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

  • یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل

    یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(197,219,0,0.47)”]

    یہ کیا ستم ظریفئ فطرت ہے آج کل
    بیگانگی شریک محبت ہے آج کل
    غم ہے کہ ایک تلخ حقیقت ہے آج کل
    دل ہے کہ سوگوار محبت ہے آج کل
    تنہائی فراق سے گھبرا رہا ہوں میں
    میرے لیے سکوں بھی قیامت ہے آج کل
    ہر سانس ترجمانِ غم دل ہے اِن دنوں
    ہر آہ پردہ دارِ حکایت ہے آج کل
    میری وفا ہی میرے لیے قہر بن گئی
    اپنی جفا پہ اُن کو ندامت ہے آج کل
    پھر چاہتا ہوں اک الم تازہ تر شکیلؔ
    پھر دل کو جستجوئے مسرت ہے آج کل
    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    شاعرہ: شکیلؔ بدایونی

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    یہ کیا ستم ظریفی فطرت ہے آج کل

  • کیا جانئیے کیوں اداس تھی وہ

    کیا جانئیے کیوں اداس تھی وہ

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(247,253,190,0.47)”]

    کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ
    کب اتنی ادا شناس تھی وہ
    ہر خواب سے بے طرح ہراساں
    ہر خواب کے آس پاس تھی وہ
    سرشاریِ شوق و بے نیازی
    ہر رنگ میں خوش لباس تھی وہ
    پیروں میں ہزار بیڑیاں تھیں
    اور سرد و سمن کی آس تھی وہ
    جیسے شبِ ہجر کی سحر ہو
    کچھ ایسی ہی بے قیاس تھی وہ
    چھیڑی تھی اداؔ نے آپ بیتی
    یوں جیسے خود اپنے پاس تھی وہ
    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    شاعرہ: اداؔجعفری

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

  • یوں جنوں پر منحصر ہو جاؤں

    جنوں  –   غزل

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(61,0,30,0.47)”]

    یوں جنوں پر منحصر ہو جاؤں گا
    ایک تپتی دوپہر ہو جاؤں گا
    آندھیوں کی گر یہی حالت رہی
    صبح تک میں منتشر ہو جاؤں گا
    مجھ سے وہ ملنے کا وعدہ تو کریں
    حشر تک میں منتظر ہو جاؤں گا
    پی کے تیرے پیار کا آبِ حیات
    دیکھنا، اک دن حضر ہو جاؤں گا
    چارہ گر امیرا کہیں جانے کو ہے
    میں مریضِ رنج پھر ہو جاؤں گا
    فن اگر اظہار کا طالب ہوا
    میں بھی فاتح ؔمشتہر ہو جاؤں گا

    [spacer size=”30″]

    [/nk_awb]

    [mks_separator style=”solid” height=”1″]

    شاعر: ظہور احمد فاتحؔ

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

  • بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں

    بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں    –   غزل
    [mks_separator style=”solid” height=”2″]
    [spacer]

    بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
    صحرا مرا چہرہ ہے، سمندر تری آنکھیں
    پھر کون بھلا دادِ تبسم انہیں دے گا
    روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
    خالی جو ہوئی شامِ غریباں کی ہتھیلی
    کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تری آنکھیں
    بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
    کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تری آنکھیں
    ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
    پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر، تری آنکھیں
    میں سنگ صفت ایک ہی راستے میں کھڑا ہوں
    شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
    یوں دیکھتے رہنا اُسے اچھا نہیں محسنؔ
    وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر، تری آنکھیں

    [spacer size=”30″]
    [mks_separator style=”solid” height=”2″]
    شاعر: محسن نقوی
    [mks_separator style=”solid” height=”2″]
  • مار ہی ڈال مجھے چشمِ ادا سے پہلے

    مار ہی ڈال مجھے چشمِ ادا سے پہلے

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#000052″]

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    .غزل

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    [spacer size=”10″]

    مار ہی ڈال مجھے چشمٖ ادا سے پہلے

    اپنی منزل کو پہنچ جاؤں قضا سے پہلے

    اک نظر دیکھ لوں آ جاؤ قضا سے پہلے

    تم سے ملنے کی تمنا ہے خدا سے پہلے

    حشر کے روز میں پوچھوں گا خدا سے پہلے

    تو نے روکا نہیں کیوں مجھ کو خطا سے پہلے

    اے میری موت ٹھہر ان کو آنے دے

    زہر کا جام نہ دے مجھ کو دوا سے پہلے

    ہاتھ پہنچے بھی نہ تھے زلف دوتا تک مومنؔ

    ہتھکڑی ڈال دی ظالم نے خطا سے پہلے

    [spacer]

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    مومنؔ

    [/nk_awb]

     

  • فیض احمد فیض

        فیض احمد فیض صاحب 13 فروری 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی اور یہی انہوں نے اردو ، فارسی اور عربی زبان سیکھی۔ بعد ازاں انہوں نے گورنمنٹ کالج سے انگریزی اور عربی زبانوں میں ماسٹر کیا۔

    فیض صاحب کا شمار اردو کے بہت مشہور شعراء میں ہوتا ہے۔آپ علامہ اقبال اور غالب کے بعد اردو کے عظیم شاعر مانے جاتے ہیں۔

     آپ کافی عرصہ مختلف ادبی رسائل  و جرائد کے مدیر بھی رہے۔ آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں نقشِ فریادی، دستِ صبا، زندہ نامہ، دستِ تحِ سنک، سروادیِ سینہ، شامِ شہریاراں، میرے دل میرے مسافر اور نخصہِ ہائے وفا شامل ہیں۔

    فیض احمد فض کا انتقال 20 نومبر 1984 کو لاہور میں ہوا۔

  • دردِ دل کا اب نیا انداز ہونا چاھیے

    دردِ دل کا اب نیا انداز ہونا چاھیے

    [nk_awb awb_type=”color” awb_color=”#000052″]

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    .غزل

    [mks_separator style=”solid” height=”2″]

    [spacer size=”10″]

    دردِ دل کا اب نیا انداز ہونا چاہیے

    شہر سارا گوش بر آواز ہونا چاہیے

    دوستو! اب کے قفس اپنا مقدر ہی سہی

    دل میں کچھ تو جذبہ پرواز ہونا چاہیے

    دامنِ کوہسار میں خاموش ندیا کی طرح

    حسن کے نغموں کو بے آواز ہونا چاہیے

    وقت کے ساحل پر اک بیجان پرندہ گر پڑا

    اب نئے عنوان کا آغاز ہونا چاہیے

    [spacer]

    [mks_separator style=”solid” height=”4″]

    [/nk_awb]