داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

[nk_awb awb_type=”color” awb_color=”rgba(163,181,162,0.54)”]
[mks_separator style=”solid” height=”4″]
[dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

غزل

[/dropshadowbox]

داغِ دِل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گمان
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر ہی اُڑتے نشانے لگے
[spacer size=”30″]

[/nk_awb]

[dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

شاعر: ؟

[/dropshadowbox]

[dropshadowbox align=”none” effect=”lifted-both” width=”auto” height=”” background_color=”#ffffff” border_width=”1″ border_color=”#dddddd” ]

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

ایک عجب سے وہم وہ گمان میں زندگی پھنس چکی ہے کہ اپنا ہر اٹھایا ہوا قدم غیر یقینی سا لگنے لگا ہے، اپنے پاس کی شے اچھی لگنے لگی ہیں، جہاں کبھی اپنا مقام بنانے میں صدیاں لگیں وہاں ایک پل سے ایسے اٹھ کھڑے ہوئے کہ گویا جانتے ہی نہیں، یہ ہمارے دل کے داغ جلے ہیں کہ لوگوں کے دئیے جل اٹھے؟ ہمارے گھر کے چراغ سے کتنے گھروں میں اجالا ہو رہا ہے،  پر کیا کریں مسعود صاحب قسمت سے مفر ہو سکتا ہے؟ جہاں تیر لگنا ہو وہاں خود بخود قدم لے جاتے ہیں۔۔۔

فریدہ خانم کی زبانی۔۔

[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=a9qSbx__oQ0[/embedyt]

[/dropshadowbox]

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *